جمعۃ المبارک‘ 26 ؍جمادی الثانی 1441ھ ‘ 21 ؍ فروری 2020 ء
سبی میلہ دعوت نامہ میں عمران کی جگہ نواز شریف کی تصویر
یہ کیا غضب کر دیا سبی میلے والوں نے۔ ایک دو نہیں پورے ایک ہزار خاص مسلمانوں کو یہ دعوت نامے ارسال کئے گئے تھے۔ اب لاکھ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ ایک دوسرے پر ملبہ ڈال کر اپنی گردن بچانے کی کوشش کرے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ کسی نے بھی دعوت نامے چیک نہیں کئے اور وہی پرانے جو دعوت نامے پڑے ہیں انہی کو کام میں لائو والی پالیسی اختیار کی گئی۔ جس کا خمیازہ اب بھگتنا ہو گا ۔ صوبائی حکومت اس وقت خود کو بچانے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ اور نمبر گیم برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ وہ حکومتی امور پر یا ان دعوت ناموں پر توجہ دے۔ جب ایسا وقت ہو تو پھر حکومتی کارندے بھی عوامی معاملات سے آنکھیں موند لیتے ہیں، جس کے بعد ایسے عجوبہ روزگار قسم کے واقعات رونما ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ اگر اس سے بھی پرانی ردی دستیاب ہوتی تو یہ لوگ اس میں پڑے دعوت نامے بھی جھاڑ پونچھ کر استعمال میں لے آتے۔ پھر کیا ہوتا جب دعوت نامہ میں سابق وزیر اعظم جونیجو مرحوم یا صدر مشرف کی تصویر لگی نظر آتی ۔ اب دیکھتے ہیں معاملہ دبا دیا جاتا ہے یا ملوث افراد کی شامت آتی ہے۔ ویسے یہ کوئی اتنا اہم قومی مسئلہ تو ہے نہیں۔ آخر نواز شریف بھی 3 بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں ان کی یاد بھی ابھی تازہ ہے۔ اس لیے یہ غلطی ہو گئی ہو گی۔ یہ قطعاً کسی کی شرارت نہیں۔ ویسے بھی کوئی اتنا بے وقوف نہیں کہ جانتا نہ ہو ایسا کرنا کتنا خطرناک ہے۔
٭٭٭٭٭
صدارتی الیکشن جیت گیا۔ عبداللہ عبداللہ نے نتائج مسترد کر دئیے
لیجئے جناب جمہوریت کی ایک اور کرامت افغانستان میں بھی ظاہر ہو گئی ہے۔ جہاں الیکشن نتائج کے مطابق موجود صدر اشرف غنی کامیاب قرار پائے ہیں اور انکے حریف عبداللہ عبداللہ دوسرے نمبر پر رہے ہیں۔ مگر اب جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے ہارنے والے امیدوار نے الیکشن کمشن کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اسے دھوکہ اور فراڈ قرار دے کر اپنی فتح کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ موجودہ صدر اشرف غنی نے دھاندلی کے ذریعے یہ نتائج جاری کرائے ہیں۔ ایشیائی ممالک میں جہاں جہاں جمہوریت کی نیلم پری رقص کرتی عوام کا دل بہلاتی ہے وہاں ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا دیو بھی اُدھم مچاتا نمودار ہو جاتا ہے۔ اب معلوم نہیں اس کی وجہ جمہوری رویوں کی کمی ہے یا ہم ہار ماننے میں اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے وہ محفل طرب کس طرح میدان حرب میں تبدیل ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ پاکستانیوں کو بہت اچھی طرح ازبر ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں بھی ایسا عام طور پر ہوتا رہتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس اشرف غنی بمقابلہ عبداللہ عبداللہ ریسلنگ میں کون دھینگا مشتی کا مظاہرہ کر کے پورے ملک کو اکھاڑہ بناتا ہے۔ ویسے عبداللہ عبداللہ کے ساتھ پہلے بھی ایسا ہی ہاتھ ہوا تھا اب تو ان کی قوت برداشت بھی …
؎ملنے لگتی ہے جب بھی حکومت مجھے
خفیہ ہاتھ نتائج کو بدل دیتے ہیں
کہتے ہوئے جواب دینے لگی ہے۔
چاہتا ہوں حکومت گرا دوں۔ بلاول
تو روکا کس نے ہے جناب کو بسم اللہ تو کریں۔ ورنہ صرف چاہنے سے یہ کام تو ہونے سے رہا۔ بلاول کی اس معصومانہ خواہش پر تو ہم بزبان چچا غالب…؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
والی بات ہی کہہ سکتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ان کا یہ کہنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے۔ حیرت ہے حکومت گرانے کی چاہت کے باوجود وہ ایسی بات کر رہے ہیں تو کیا وہ کسی ٹونے ٹوٹکے سے ایسا کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ یہ تو ان کی سب سے بڑی خام خیالی ہے۔ کیونکہ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ حکومت جادو پر چل رہی ہے تو پھر بھلا ان کے پاس اس کا توڑ کیا ہو گا۔ ابھی تک تو اپوزیشن کے سارے جنتر منتر ٹونے ٹوٹکے حکومتی جادو کے آگے بے کار ہی ثابت ہوئے ہیں۔ اس لئے سازش نہ سہی مگر اب انہیں کوئی نہ کوئی راہ نکالنا ہی ہو گی، جبھی تو انہیں پنجاب میں آ کر شہباز شریف کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ رہی بات مولانا فضل الرحمن کی تو وہ کھل کر حکومت کو چیلنج کرتے پھر رہے ہیں۔ تحریک چلانے کے اعلانات کررہے ہیں۔ سازش تو وہ بھی نہیں کر رہے اس کھلے عام کام کو ہم کوشش ضرور کہہ سکتے ہیں۔ ہاں اگر لندن سے آ کر میاں شہباز شریف اور بلاول مل کر مولانا سے جا کر خفیہ میٹنگ اور ملاقاتیں کرتے ہیں تو کیا حکومت اسے سازش کہہ سکتی ہے۔ سیاست میں ایسا کرنا ضروری ہے کیونکہ صرف خواہشوں سے نہ تو حکومت گرتی ہے نہ کوئی تحریک کامیاب ہوتی ہے۔ کوئی نہ کوئی خفیہ پلاننگ تو کرنا ہی پڑتی ہے ناں ۔
٭٭٭٭٭
95 ء سالہ بڑھیا نے شادی کے 60 برس بعد خاوند کیخلاف جہیز کی واپسی کا مطالبہ کر دیا
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔ یہ کام اس وقت محترمہ کو یاد کیوں نہیں آیا جب بقول بابا اس نے 35 سال قبل بی بی کو طلاق دیدی تھی۔ موصوفہ اس طلاق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ اب عمر کے اس حصہ میں انہیں اپنے میکے سے دیا جہیز کا سامان یاد آ گیا۔ صرف یاد ہی نہیں آیا اس کی مکمل فہرست ہر چیز کا اندراج کر کے شوہر سے ان چیزوں کی واپسی کا مطالبہ وہ بھی بذریعہ عدالت کر رہی ہیں۔ یہ عجب معمہ ہے۔ اگر طلاق نہیں ہوئی اور محترمہ شوہر کے ساتھ ہیں تو سامان کی طلبی کیوں جب جی چاہے سارا سامان اٹھا کر چاہے گھر کے اپنے کمرے میں رکھے چاہے واپس میکے بھیج دے۔ اسے کون روک سکتا ہے۔ سامان بھی کوئی ایسی ویسی مالیت کا نہیں 10 لاکھ کا ہے۔ وہ بھی سکہ رائج الوقت ۔ شکر ہے قدیم دور یعنی 60برس قبل کا نہیں جب شادی ہوئی تھی۔ ورنہ اس وقت کے 10 لاکھ آج کے کم ازکم کروڑ تو ضرور بنتے ہیں اور اگر طلاق ہو چکی تو بی بی نے اس وقت سامان واپس کیوں نہ لیا۔ 60 برس کس کا انتظار کیا۔ اب بابا بے چارہ کیا کرے گا۔ اس عمر میں 10 لاکھ روپے وہ کہاں سے کما کر لائے گا یا جمع کر پائے گا۔ معلوم نہیں بڑی بی کو کس نے بھڑکایا ہے اپنے مجازی خدا کے خلاف جو خود بھی اب بڑی بی کی طرح خدا کو پیارے ہونے والی عمر میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ معاملہ تو عدالتی سے زیادہ کسی مزاحیہ ڈرامے کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ اس عمر میں تو لوگ اپنوں کو بھول جاتے ہیں مگر آفرین ہے بڑی بی پر کہ انہیں سامان کی ہرچیز یاد ہے۔
٭٭٭٭٭