پرانی کہاوت ہے چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے ۔یہی خصوصیت بنیے کی ہے۔ہم جتنا بھی ہندوستان کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسکے ناز نخرے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ اتنا ہی زیادہ ہمیں ڈنگ مارنے کی کوشش کرتا ہے۔کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جہاں وہ ہمیں نقصان نہ پہنچائے۔ ایسے نظر آتا ہے کہ بھارت ماتا کا اصل مقصد ہی پاکستان کو تنگ کرنا اور پاکستان کی سلامتی کے ساتھ کھیلنا ہے۔ اس لئے پاکستان کو ہر وقت ہوشیار رہنا پڑتا ہے ۔جب سے نریندرا مودی دوبارہ وزیر اعظم بنا ہے اس نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کر دیا ہے۔ مودی کے بھارت میں اسوقت جتنے مسلمان مجبور و مقہور ہیں اتنا اور کوئی مذہب نہیں ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمان مع کشمیر ہمارے خون کے بہن بھائی ہیں۔ انکا دکھ درد ہمارا دکھ درد ہے ۔انکی تکلیف ہماری تکلیف ہے ۔اس لئے ہم ان کی تکالیف سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ انکا دکھ فوری طور پر پاکستان میں محسوس ہوتا ہے اور یہی کچھ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کو مسلسل ٹینشن اور پریشانی میں رکھے۔ جس میں وہ کافی کامیاب بھی نظر آتا ہے کیونکہ بھارت ہر وقت نئی سے نئی سازشوں میں مصروف رہتا ہے اور یہ سازشیں ہماری سلامتی پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں۔ جیسے بیٹھے بٹھائے کشمیر کا سٹیٹس تبدیل کر کے کشمیری مسلمانوں کو عذاب میں ڈال دیا ۔ان کی آواز بند کرنے کے لئے ان پر کرفیو جیسی پابندیاں لگا دیں جو کسی نہ کسی شکل میں تا حال جاری ہیں۔ پھر کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لئے بھارت میں خصوصاً مسلمانوں کے لئے شہریت بل کا مسئلہ کھڑاکر دیا جس نے پورے بھارت میں ہلچل مچا دی اور عوام سڑکوں پر آگئے۔اب ان سے توجہ ہٹانے کے لئے دیکھیں کونسا تماشہ لگایا جاتا ہے۔ گمان غالب ہے کہ یہ مسئلہ پاکستان کے خلاف کھڑا کیا جائیگا شاید آزاد کشمیر میں۔
یہ مسائل اپنی جگہ لیکن بھارت اسوقت پاکستان کے خلاف ایک اور بہت تباہ کن چال چل رہا ہے ۔بھارت کی شروع سے یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کی سلامتی ہمیشہ خطرات میں گھری رہے۔ اب نئی چال ہمارا پانی بند کرکے ہمیں مارنا ہے۔ تقسیم پاکستان کے وقت پاکستان کو وہ علاقہ نصیب ہوا جو محض زرعی علاقہ تھا۔ اس علاقے میں کسی قسم کی انڈسٹری نہ تھی اور موجودہ دور میں کوئی ملک انڈسٹری کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ زراعت کی ترقی کے لئے پانی کا حصول لازم ہے جس کے بغیر تو گھاس بھی نہیں اگ سکتی ۔ تقسیم ہند سے پہلے مغربی پاکستان کو ایک معقول نہری نظام کے ذریعے سیراب کیا جارہا تھا ۔ اس علاقے کو سیراب کرنے والی نہریں ’’مادھوپور ہیڈ ورکس‘‘ اور ’’فیروز پور ہیڈ ورکس‘‘ سے نکالی گئی تھیں۔ جب مغربی پاکستان کی سرحدی لائن ڈرا کی جارہی تھی تو چالاک بنئے نے بارڈر کمیشن پر اثر انداز ہو کر مادھوپور اور فیرو پور دونوںہیڈ ورکس بھارت میں ڈلوائے تو یوں پاکستان کی گردن پر پنجا کسا۔ کشمیر پر بھارت قابض ہو گیا تو یوں پاکستان کے دریا بھی بھارت کے قبضے میں چلے گئے۔ پانی کے بغیر پاکستان کی حالت ایک مردہ جسم والی تھی ۔ کافی کوششوں اور مذاکرات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے صدر مرحوم فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ مغرب والے تین دریا یعنی بیاس ستلج اور راوی کا پانی بھارت استعمال کرے اور مشرق کے تین دریا سندھ۔ جہلم۔ اور چناب پر حق پاکستان کا ہو۔ یہ ایک معقول فیصلہ تھا جو سندھ طاس معاہدے کے نام سے 1962 میں پایہ تکمیل تک پہنچا۔ پانی ملنے کے بعد پاکستان نے زراعت میں کافی ترقی کی۔ بہت سا بنجر علاقہ زیر کاشت لایا گیا۔ آہستہ آہستہ انڈسٹری بھی لگنی شروع ہو گئی۔ یہ ترقی بھی بھارت سے برداشت نہ ہوئی۔ سسٹم میں روڑے اٹکانے شروع کر دئیے بالآخر اب آکر مودی نے اعلان کر دیا ہے کہ کشمیر سے آنے والے تمام دریا بھارت کے ہیں اور ان سے کسی کے پانی پر پاکستان کا حق نہیں لہٰذا پانی کی ایک بوند بھی پاکستان کو نہیں دی جائیگی۔
بیرونی پریس کے مطابق بھارت سندھ طاس معاہدہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ جس طرح کشمیر کا آرٹیکل 370 یکدم ختم کیا گیا ہے اسی طرح اس معاہدے کی تمام اہم شقیں بھی فوری ختم کر دی جائیں گی؟ یہ مسئلہ چونکہ بین الاقوامی ہے اس لئے خطرہ ہے کہ کوئی بین الاقوامی ادارہ نہ راستے کی رکاوٹ بن جائے ۔ لہٰذا بھارت نے فیصلہ کیا ہے کہ اہم بین الاقوامی اداروں کو پہلے ہی کانفیڈنس میں لے کر اقوام متحدہ کی اخلاقی سپورٹ حاصل کر لی جائے۔ لہٰذ اس وقت اس موضوع پر ایک ڈرافٹ اقوام متحدہ کی گیلری میں گھوم رہا ہے۔ متعلقہ لوگ اس ڈرافٹ پر غور و خوض کر رہے ہیں۔ بھارتی لابی کی کوشش ہے کہ تمام متعلقہ اداروں اور ان کے بااثر اہلکاروں کو کانفیڈنس میں لے کر انکا راضی نامہ حاصل کر لیا جائے تاکہ وقت آنے پر یہ لوگ مخالفت نہ کریں۔ اچانک ہی اس معاہدہ کے اختتام کا اعلان کر دیا جائے کہ یہ معاہدہ اب قابل عمل نہیں رہا۔ سوا پاکستان یا کسی ایک آدھ مسلمان ملک کے علاوہ کسی بڑی طاقت کی طرف سے زیادہ مخالفت سامنے نہیںآئیگی اور یوں بھارت اپنی کامیابی حاصل کر لے گا۔ ہماری سفارتی کوششیں بھارت کے مقابلے میں کافی کمزور ہیں۔ معلوم نہیں ہم بین الاقوامی فورم پر بھارتی لابی کا مقابلہ کر سکیں گے یا نہیں۔ پانی زندگی ہے۔ پانی کی پہلے ہی پاکستان میںشارٹیج ہے۔ ہمارا زمینی پانی پہلے کی نسبت بہت نیچے جا چکا ہے۔ یہ پانی بھی ہمیں زیادہ عرصہ سہارا نہیں دے سکتا۔ ہماری حکومت کوابھی سے اسکا حل نکالنا چاہیے ورنہ ہماری جیسے جیسے مشکلات بڑھیں گی بھارت اتنا ہی خوش ہوگا۔ بد قسمتی سے یہی بھارت کا مقصد ہے کہ تڑپا تڑپا کر ہمیں مارے۔
کہتے ہیں بنیا ہمیشہ گہری چالیں چلتا ہے۔ بھارت کی پاکستان کے خلاف گہری چال دنیا کے 69ممالک میں انٹرنیٹ سائیٹس بنا رکھی ہیں جن کا اب علم ہوا ہے۔ معلوم نہیں یہ کتنے عرصے سے کام کر رہی تھیں اور پاکستان کو کتنا نقصان پہنچا چکی ہیں۔ یہ بہت کچھ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا تھا۔ ان سائٹس پر بھارت کے حق میں اور پاکستان کے مخالف پروپیگنڈا کیا جاتا تھا جس کے ان ممالک کے عوام میں پاکستان میں دہشتگردی، قتل و غارت اور انسانی حقو ق کی پامالی دکھائی جاتی تھی۔ میڈیا آجکل ایک بہت طاقتور ہتھیار ہے۔ دنیا کی سوچ بدل سکتا ہے۔ جب منظم اندازمیں کسی ملک کے خلاف پوری طاقت سے پروپیگنڈہ مہم چلائی جائے اور خاص کر جب آگے سے جواب بھی کوئی نہ ہو تو اس ملک کی نیک نامی پر داغ تو لگے گا۔ ہماری ڈپلومیسی کتنی کمزور ہے کہ ہمارے خلاف اتنا کچھ ہوتا رہا اور وہ بھی کسی ایک آدھ ملک میں نہیں بلکہ دنیا کے 69ممالک میں اور ہمیں پتہ بھی نہ چل سکا۔ یقینا وہاں ہمارے سفارتخانے تو ہوں گے ان سے پوچھا جائے کہ وہ وہاں کیا کر رہے تھے اور یہ خفیہ سائٹس بے نقاب کیوں نہیں ہو سکیں۔
ایسے نظر آتا ہے کہ پاکستان کے ستارے آجکل گردش میں ہیں۔ اندرونی طور پر ہمارے سیاستدانوں نے ملک میں اودھم مچا رکھا ہے۔ انہیں اپنے مسائل سے فرصت ہی نہیں کہ وہ پاکستان یا عوام کے مسائل پر سوچیں یا بہتری کے لئے کوشش کریں ۔ہماری معاشی حالت اور نتیجتاً مہنگائی نے عوام کی زندگی جہنم بنا دی ہے اور لیڈرز ہمیں ریلیف دینے کی بجائے صبر کی تلقین کررہے ہیں۔ ویسے تو اوپر دئیے گئے حالات ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ اسی ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت تشریف لا رہے ہیں۔ مودی اور ٹرمپ آپس میں گہرے دوست شمار ہوتے ہیں۔ ٹرمپ نے آنے سے پہلے بھارت کو ائیر ڈیفینس سسٹم کا تحفہ عطا کر دیا ہے۔ یہ وہ ایڈوانس سسٹم ہے جو دنیا میں چند ممالک کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ اس تحفے کا اثر پاکستان پر کیا ہو گا سوچا جا سکتا ہے۔ دوسرا خطرہ ہے کہ کشمیر پر ٹرمپ کیا بیان دیتا ہے۔ وہ کافی عرصہ سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بات کرتا رہا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم سے بھی اس نے دو دفعہ ثالثی کی بات کی ہے مگر اسکی ثالثی تو ایسی ہوتی ہے جسے بیت المقدس کی ثالثی ہوئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت مسئلہ کشمیر پر کوئی پالیسی بنا چکی ہے جس کی وہ ٹرمپ سے تو ثیق چاہیں گے ۔یاد رہے کہ پچھلے ہفتے بھارت نے 54ملکوں کے نمائندوں کو کشمیر کی سیر کرائی ہے اور یہ بے مقصد نہیں ہو سکتی۔ اسوقت پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر بھارت کی نظر میں کھٹک رہے ہیں۔ مودی نے حال ہی میں ایک بہت ہی خطرناک بیان دیا ہے : ’’ میں نے اب تک جو کچھ کیا ہے وہ محض ٹریلر تھا اور جو کچھ اب کرنے جا رہا ہوں اسے دنیا دیکھے گی ‘‘۔سمجھنے والوں کے لئے یہ اشارہ کافی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024