امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مجوزہ دورہ بھارت جو 24، 25فروری 2020ء کو ہونا ہے، بھارت کے ساتھ علاقائی سلامتی، سی پیک اور سٹرٹیجک پارٹنر کے طور پر بڑے تجارتی معاہدوں کا امکان موجود ہے، تاہم امریکی حکومت اور ٹرمپ برملا اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ بھارت نے اس معاملے پر گرمجوشی کا اظہار نہیں کیا ہے جس کی امریکہ توقع رکھتا تھا اور اس وقت سفارتی ذرائع پر اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم ایک ذریعہ نے یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ٹرمپ کے موجودہ دورے میں بھارت کے ساتھ کسی بڑی ڈیل پر پیشرفت ممکن نہیں۔
دوسری جانب اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ دورہ بھارت میں مودی سے مسئلہ کشمیر اور افغانستان کے مسئلے پر بات کرنے کے خواہاں بھی ہیں اور اگر مسئلہ کشمیر پر کوئی پیشرفت ہوئی تو 26فروری کو صدر ٹرمپ کا مختصر دورہ پاکستان جو چند گھنٹوں کیلئے ہوگا، متوقع ہے جس میں عمران خان سے ملاقات کے بعد ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر اپنا مجوزہ امن پلان پیش کرسکتے ہیں۔ جیساکہ انہوں نے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کا امن پلان اسرائیلی وزیراعظم کو امریکہ بلا کر اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ریاستوں کو حمایت میں لیکر پیش کیا تھا۔ گواس معاہدہ کو معاہدہ کی فریق ریاست فلسطین کے ساتھ ساتھ ترکی، عراق، اُردن اور کئی دیگر مسلم ممالک نے مسترد کر دیا تھا جبکہ فلسطین اور ترکی میں بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی کئے گئے۔
ادھر افغانستان میں ہونے والی پیشرفت میں کہا جا رہا ہے کہ اس ماہ کے آخر تک یا اوائل مارچ میں امریکی حکومت اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پا جائے گا اور اس معاہدہ پر دستخط کے بعد امریکہ مرحلہ وار افغانستان سے فوجی انخلاء کا آغاز کرے گا جس پر موجودہ افغان حکومت کو تحفظات ہیں۔ ادھر ترکی اور ملائیشیا نے مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کیلئے اپنی کوششوں کو تیز کر دیا ہے اور صدر اردگان کا حالیہ دورہ پاکستان بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی بتایا جاتا ہے جبکہ حال ہی میں عمران خان وزیراعظم پاکستان کا دورہ ملائیشیا بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھا۔ قبل ازیں ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس میں 57ممالک نے شرکت کی تھی اور مسلم بلاک کو مزید موثر اور مضبوط بنانے کی قرارداد منظور کرنے کے علاوہ او آئی سی کو زیادہ موثر اور مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کی آپس میں تجارت، آمدورفت کی سہولتوں اور ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہنرمندوں کے تبادلے کے بارے میں بھی بات کی گئی تھی۔ اسی سلسلے میں ترکی کے صدر طیب اردگان نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں ترکی کی حکومت کی جانب سے پاکستانیوں کیلئے تجارت و ترقی کے ساتھ ساتھ ترکی اور پاکستان کے درمیان سفری سہولتوں میں بہتری کی تجاویز بھی پیش کی تھیں۔
صدر امریکہ کا مجوزہ دورہ بھارت علاقے میں سیاسی، معاشی اور امن کی طرف ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جبکہ چینی حکومت اور سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ روس بھی اس دورہ کو بہت قریب سے مانیٹر کر رہا ہے اور آنے والے دنوںمیں اس مثبت یا منفی اثرات کا اندازہ لگا رہے ہیں۔ چین اس دورہ کو خاص طور پر سی پیک کے حوالے سے مانیٹر کر رہا ہے۔ ادھر بھارت نے 6ماہ گزرنے کے باوجود بھی مقبوضہ کشمیر سے نہ تو کرفیو ختم کیا ہے اور نہ ہی مواصلات کی سہولتیں بحال ہیں جس پر اقوام متحدہ کے ساتھ متعدد عالمی تنظیموں نے نہایت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ امریکی صدر بھارت کے ان غیرقانونی اور انسانیت سوز عمل پر اپنے اس دورہ بھارت میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے بات کرکے 80لاکھ کشمیریوں کیلئے بات چیت کریں گے اور نہ صرف محاصرہ ختم کرائیں گے بلکہ پاکستان اور بھارت کو ایک میز پر لانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے، گوکہ بھارت امریکہ کیلئے اس وقت ایک اہم سٹرٹیجک پارٹنر کا درجہ رکھتا ہے مگر مسئلہ افغانستان کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت بھی کچھ کم نہیںاور امریکہ اس وقت پاکستان سے تعلقات میں مکمل سردمہری نہیں برت سکتا ہے کہ افغان امن معاہدہ میں پاکستان اس کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان کی چین اور روس سے بڑھتی ہوئی قربت کو بھی مدنظر رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان سے تعلقات میں سردمہری یا تعلقات کی خرابی کا مقصد امریکہ کا اس خطے سے عمل دخل نہ صرف برصغیر بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ ان تمام مسائل کا جائزہ بڑی باریکی کے ساتھ امریکی محکمہ خارجہ اور صدر ٹرمپ کے ساتھ ساتھ ان کی ٹیم ملکر حتمی لائحہ عمل طے کر رہی ہے جس کا صحیح اندازہ صدر امریکہ کی بھارت کی سرزمین پر اترنے کے بعد ہی لگایا جاسکے گااور نتائج کا صحیح اندازہ بھی اس دورے کے مکمل ہونے پر ہی لگ سکے گا۔ پاکستان میں بھی اس دورہ کو بہت باریکی سے دیکھا جا رہا ہے اور حکومت پاکستان کو توقع ہے کہ مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ پیشرفت کرسکیں گے جبکہ افغانستان میں بھی پاکستان امن کا خواہاں ہے اور ممکنہ طور پر اس کی مدد کو تیار ہے۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024