پاکستان اور ترکی کے باہمی تعلقات پُرخلوص دوستی‘ بے لوث محبت اور باہمی عزت و احترام کا استعارہ ہیں۔ ان تعلقات کی جڑیں تقسیم ہندوستان سے قبل کے دور میں پیوست ہیں۔ تحریک خلافت کے دوران برصغیر کے مسلمانوں نے جس والہانہ انداز اور ملی جذبے سے سلطنت عثمانیہ کے حق میں آواز بلند کی اور دامے‘ درمے‘ قدمے‘ سخنے ترک قوم کا ساتھ دیا‘ وہ آج تک ہمارے ترک بہن بھائیوں کے دل پر نقش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستانیوں اور ترکوں کی خوشیاں اور غم سانجھے ہیں۔دونوں قومیں محبت اور ایثار کے ایسے اٹوٹ رشتے میں بندھی ہیں جو زمانے کے نشیب و فراز سے ماورا ہے۔ جن پاکستانیوں کو ترکی جانے کا اتفاق ہوا ہے‘ وہ ترک قوم کی پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کے گواہ ہیں۔ دنیا کے شاید ہی کسی دوسرے ملک میں پاکستانیوں کو اس قدر عزت و احترام دیا جاتا ہو جتنا ترکی میں دیا جاتا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان دنیائے اسلام کے واحد لیڈر ہیں جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کے متعلق پاکستانی موقف کی کھلم کھلا حمایت اور بھارت کی طرف سے کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی ہر عالمی فورم پر ببانگِ دہل مذمت کی ہے۔ ترکی نے امریکہ اور بھارت کی جانب سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF) کے ذریعے پاکستان کا بازو مروڑنے کی کوششوں کی جس طرح مزاحمت کی ہے‘ اس نے پاکستانی قوم کے دل و دماغ میں ترکی کے لئے محبت اور ستائش کے جذبات کو مزید مہمیز عطا کردی ہے۔ دسمبر 2019ء میں کوالالمپور سربراہی اجلاس میں وعدے کے باوجود پاکستان شریک نہ ہوا جو سفارتی لحاظ سے انتہائی نامناسب تھا تاہم ترک صدر نے پاکستان کی مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے پہلے سے طے شدہ اپنا دورۂ پاکستان کیا۔ ان کا یہ قدم ان کی وسعت قلبی‘ اعلیٰ ظرفی او رپاکستان سے گہری محبت پر دلالت کرتا ہے۔ صدر رجب طیب اردگان نے پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب‘ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس اور دیگر مواقع پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جس شد و مد سے پاکستانی موقف کی حمایت اور بھارت کو مطعون کیا‘ اس نے بھارتی ایوانوں میں اتنی کھلبلی مچا دی کہ بھارتی وزارت خارجہ نے ترک سفیر ساکر اوزان تورونلر کو طلب کرکے نہ صرف احتجاج ریکارڈ کرایا بلکہ اسے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت بھی قرار دیا۔ درحقیقت ترک صدر کی طرف سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب اور دورۂ پاکستان کے دوران مسئلہ کشمیر کو زوردار انداز میں اٹھانے سے اس مسئلے کی بین الاقوامی اہمیت اجاگر اور بھارت کی جانب سے اسے دو طرفہ معاملہ قرار دینے کی نفی ہوئی ہے۔ اس تناظر میں نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں ایک فکری نشست منعقد کی جس کے مہمانان خاص سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اور ترک امور کے ماہر معروف دانشور فرخ سہیل گوئندی تھے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے معزز مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ -5اگست 2019ء کے بھارتی اقدام کے باعث پاکستانی قوم میں عمومی طور پر ایک مایوسی کا عنصر دکھائی دیتا ہے تاہم ترک صدر رجب طیب اردگان نے حالیہ دورۂ پاکستان کے دوران جس لب و لہجے اور استقلال کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے‘ اس نے اہل وطن کو از سر نو حوصلے اور خود اعتمادی سے سرشار کردیا ہے۔ نشست کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اور ترکی کے باہمی دوستانہ تعلقات کے ماضی اور حال کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کے امکانات کا جائزہ لیا جائے۔
خورشید محمود قصوری نے نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی اور ترک اقوام کی دوستی اور محبت کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ تحریک خلافت کے دوران برصغیر کی مسلمان خواتین کی طرف سے عطیہ کردہ زیورات سے ترکی نے اپنا پہلا بنک ’’ترک ایش‘‘ قائم کیا اور وہ آج بھی بڑے فخر سے اس کا اعتراف کرتے ہیں۔
خورشید محمود قصوری کا کہنا تھا کہ ہم کئی معاملات میں ترکی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ میاں محمد شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دوران پنجاب پولیس کی اعلیٰ پیشہ ورانہ تربیت ترکی میں ہوئی۔ اسی طرح جب امریکہ نے اپنے عسکری اداروں میں افواج پاکستان کے افسروں کی تعلیم و تربیت پر پابندی عائد کردی تھی تو پاکستان کے فوجی افسران نے ترکی کے فوجی تربیتی اداروں میں تربیت حاصل کی کیونکہ ان اداروں کا معیار نیٹو (NATO)کی سطح کا ہے۔ جس شعبے میں پاکستان اور ترکی سب سے زیادہ تعاون اور مشترکہ منصوبے شروع کرسکتے ہیں‘ وہ دفاعی شعبہ ہے۔ پاکستان اگر عالمی معاملات میں اپنی آواز کو توانا بنانا چاہتا ہے تو اسے اقتصادی مسائل سے نجات حاصل کرکے خود کو معاشی لحاظ سے خود مختار بنانا ہوگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ترک رہنما اپنے ملک کو اقتصادی طور پر خوش حال بنا کر اب مسلم امہ کو لاحق مسائل پر توجہ دے رہے ہیں۔ اگر فلسطین‘ کشمیر اور روہنگیا کے مسلمانوں کی حالت زار پر اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے اپنی آواز بلند نہ کی تو پھر ترکی دنیائے اسلام کے حوالے سے اپنے آپ کو اور زیادہ منوائے گا۔ آج ترکی کی معیشت کا حجم 700بلین ڈالر ہے اور ان کا ارادہ ہے کہ 2023ء تک اسے ایک ٹریلین ڈالر تک لے جائیں۔ رجب طیب اردگان نے دس برس کے دوران ترکی کو معاشی لحاظ سے بہت مضبوط بنا دیا ہے۔ اس نے اپنی قوم کو یورپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا سکھایا ہے اور ایسی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے کہ ترک سیاست سے فوجی جرنیلوں کا عمل دخل ختم ہوکر سویلین بالادستی قائم ہوگئی ہے۔ خورشید محمود قصوری نے مستقبل میں پاکستان‘ ترکی اور ملائشیا پر مشتمل ایک علاقائی بلاک بننے کے امکانات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لئے جغرافیائی لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑے ہونا اور معاشی لحاظ سے ہم پلہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 1960ء کی دہائی میں پاکستان معاشی لحاظ سے آج کی دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک سے آگے تھا تو ہم ایک بار پھر اقتصادی ترقی کی وہ منزل کیوں حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پالیسی ساز مینو فیکچرنگ سیکٹر کو اہمیت دیں اور قانون سازی کے ذریعے نہ صرف اس کے لئے زمین تیار کریں‘ اسے تحفظ دیں بلکہ مالی نظم و ضبط کو بھی یقینی بنائیں۔
فرخ سہیل گوئندی نے کہا کہ جہاں ترکی نے ہر موقع پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے‘ وہاں پاکستان نے بھی ہر مشکل وقت میں ترکی کا ساتھ نبھایا ہے۔ جولائی 1974ء میں شمالی قبرص کا معاملہ ہو یا ترکی میں 27 جون 1998ء کا زلزلہ‘ پاکستان نے اس کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ پاکستانی قوم کے اس خلوص اور محبت کو ترکوں نے ہمیشہ یاد رکھا ہے۔ ہمیں ترکی کے سیاسی نظام سے سیکھنا چاہیے جس میں کوئی سیاسی جماعت مال و دولت کے بل بوتے اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی کی ترقی کا راز مقامی بلدیاتی نظام میں پنہاں ہے جو بے حد مضبوط اور موثر ہے اور ہمیں اپنے ہاں بھی ایسا ہی بلدیاتی نظام رائج کرنا چاہئے۔ جس طرح ترک قوم اپنے قومی مفاد کو ہمیشہ اولیت دیتی ہے‘ اسی طرح ہمیں بھی اپنے قومی مفادات کی نگہبانی کرنا چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024