14مجرموں کو سزائے موت، 25کو عمر قید 15جوڑوں کی سلح
لاہور (شہزادہ خالدسے) ملکی تاریخ میں پہلی بار بنائی جانے والی شام کی عدالتوں اور انسداد صنفی عدالتوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ شام کی عدالتوں کے قیام کو 2 ماہ جبکہ انسداد صنفی تشدد کی عدالت کو دو برس مکمل ہو چکے ہیں۔ انسداد صنفی تشدد کی عدالت 14 مجرموں کو سزائے موت اور 25 کو عمر قید کی سزا سناچکی ہے، سائلوں کی کثیر تعداد نے ان عدالتوں کے قیام کے اقدام کو سراہا ہے۔ لاہور میں قائم کی گئی شام کی عدالت نے اب تک کل 437 مقدمات کی سماعت کی ہے جن میں سے 191 کیسز نمٹا دئیے گئے ہیں۔شام کی عدالت کو صبح کی عدالت سے مقدمات ٹرانسفر کئے گئے ہیں۔شام کی عدالت نے 70 خواتین کو ان کے موجودہ یا سابق خاندوں سے خرچہ دلوایا۔ جبکہ فاضل عدالت نے 15 جوڑوں کے درمیان صلح کروا کر ان کے مقدمات ختم کروائے۔ شام کی عدالت نے 105 مقدمات میں بچوں کی ملاقات کے حوالے سے دائرمقدمات نمٹائے۔ شام کے وقت کام کرنے والی پہلی عدالت میں اس وقت 237 کیسز زیر سماعت ہیں۔ زہرہ نسیم شام کے وقت کام کرنے والی عدالت کی پہلی جج ہیں اور سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ انوار الحق نے شام کے وقت کام کرنے والی عدالت کا افتتاح کیا تھا۔پنجاب کی پہلی انسداد صنفی تشدد کی خصوصی عدالت نے دوسال کے دوران 90 کے قریب زیادتی کیسز کے فیصلے کئے ، انہوں نے خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے 14 مجرموں کو سزائے موت اور 25 کو عمر قید کی سزا سنائی ،خواتین کی خصوصی عدالت نے 40کیسز کے ملزمان کو لواحقین کے ساتھ صلح کی بنیاد پر بری کیا۔گیارہ کیسز میں مدعی کے پیش نہ ہونے پر داخل دفتر کرنے کا حکم دیا ،صنفی تشدد عدالت کا افتتاح سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ منصور علی شاہ نے کیا تھا۔ صنفی تشدد کی خصوصی عدالت کے جج کے فرائض ایڈیشنل سیشن جج رحمت سر انجام دے رہے ہیں۔ ایڈیشنل سیشن جج سلیم سوہل بھی انسداد صنفی تشدد کی عدالت کے جج کے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔