پاکستان کے خلاف ان سب ناپاک عزائم کے باوجود پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت نے بھارت، امریکا، افغانستان اور ایران سے تحمل سے بات کی ہے مگر بقول شخصے پاکستان کو مجبور کیا جارہاہے کہ وہ جذباتی قدم اُٹھائے۔ جبکہ اس حوالے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے قوم سے خطاب میں بھارت اور ہمسایہ ممالک کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان کسی بھی کارروائی کا بھرپور جواب دے گا۔بھارت کے حوالے سے خاص طور پر انہوں نے کہا کہ بھارت نے بغیر سوچے سمجھے پاکستان پر الزام لگادیا، اور نہ ہی یہ سوچا گیا کہ اس میں پاکستان کا کیا فائدہ ہے، کوئی احمق ہی ہوگا جو ایسا موقع خود سبوتاژ کرے گا۔وزیر اعظم نے کہا کہ میں بھارتی حکومت کو پلوامہ واقعے کی تحقیقات کی پیشکش کرتا ہوں، بھارت واقعے کا ثبوت دے میں خود ایکشن لوں گا، میں یہ بات واضح طور پر کہتا ہوں یہ نیا پاکستان اور نئی سوچ ہے، ہم استحکام چاہتے ہیں، بھارت میں بھی ایک نئی سوچ آنی چاہیے، بھارت کو اگر ماضی میں ہی پھنسے رہنا ہے تو آگے بڑھنا مشکل ہوگا۔ ہم دہشت گردی پر بھارت سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں، پاکستان نے دہشت گردی کی وجہ سے 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھایا ہے۔ 70 ہزار سے زائد لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اگر کسی نے پاکستان کی سرزمین استعمال کی ہے تو وہ پاکستان کا ہی دشمن ہے۔بھارت کی جانب سے جنگ کی دھمکیوں پر وزیر اعظم نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ شروع کرنا آسان ہے لیکن اسے ختم کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اگر بھارت نے کچھ کیا تو پاکستان سوچے گا نہیں بلکہ بھرپور جواب دے گا۔بھارت کو یہ سوچنا ہوگا کہ کشمیری نوجوانوں میں موت کا خوف نکل گیا ہے ،اس کی کوئی تو وجہ ہے، افغانستان میں17سال بعد دنیا یہ تسلیم کرچکی ہے کہ مذاکرات ہی واحد راستہ ہے، افغان مسئلے کی طرح مسئلہ کشمیر مذاکرات اور بات چیت سے حل ہوگا۔
وزیراعظم کے مذکورہ خطاب کو پوری قوم نے سراہا، حتیٰ کہ بھارت میں موجود سنجیدہ حلقوں کی جانب سے بھی سراہا جا رہا ہے۔ بھارتی دانشور اورصحافی سدھیندراکلکرنی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’بھارت میں بدلے کی بات ہورہی ہے جبکہ تبدیلی کی ضرورت ہے،عمران خان کی فراخدلی جیساجواب بھارت نے نہیں دیا۔پاکستان اوربھارت مسائل مذاکرات سے حل کریں، مسائل کے حل کیلئے ماحول بہتربنانادونوں ملکوں کی ذمہ داری ہے، اس وقت بھارت میں جنگی جنون پرافسوس ہوتاہے۔عمران خان اورمودی کے درمیان ملاقات ہونی چاہئے، پاک بھارت جنگوں سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔مجھے یقین ہے الیکشن کے بعدحالات میں بہتری آئیگی،حالات بہترنہ ہوئے توپوری دنیاکیلئے خطرہ ہو سکتاہے۔‘‘بھارتی صحافی بھرکھا دت نے بھی عمران خان کے قوم سے خطاب کو مثبت کہا اور بھارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت کو مسئلہ ہے تو وہ ثبوت دے تاکہ پاکستان کی حکومت کے پاس اُس کے بعد کوئی جواب نہ رہ جائے۔ اس کے علاوہ بھارتی صحافی راج دیپ سر ڈھسائی نے ٹویٹ کیا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ یک طرف مثبت اشاروں کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
بھارت کو بھی اسی انداز میں جواب دینا ہو گا ورنہ ا س سب کا کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔بھارتی صحافی سوہانی حیدر نے بھی یہی ٹوئیٹ کیا۔عمران خان نے بھارتیوں کو واضح پیغام دیا کہ ماضی میں جو ہوا میں اس کا ذمہ دار نہیں لیکن آگے میں کسی ملک کے لیے اپنی سر زمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دوں گا۔
یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان بننے سے لے کرآج تک پاکستان طاغوتی، لسانی، انڈین، امریکن لابی کو برداشت نہیں ہو رہا،اس لیے پاکستان کے خلاف عالمی سازشیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں اور ان کا مقابلہ پاک فوج اور ہمارے سکیورٹی ادارے ہر دور میں کرتے آئے ہیں۔ اگر اس حوالے سے ہمارے سیکیورٹی ادارے کمزور ہوتے تو آج ہمارا حشر (خاکم بدہن) شام، عراق، افغانستان سے مختلف نہ ہوتا۔ ہمیں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دشمن ممالک خاص طور پر بھارت پاکستان کے بیشتر پراجیکٹس کو کمزور بنانے کے لیے سالانہ دس سے بارہ ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اس پس منظر میں واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کا یہ بیان پیش نظر رہے کہ بھارت کالا باغ ڈیم کے مخالفین پر سات ارب روپے خرچ کر رہا ہے۔ یہ خیال نہیں رہا، انہوں نے ماہانہ کہا تھا کہ سالانہ۔ تاہم بھارتی کمانڈر انچیف جنرل بھان کا وہ انٹرویو اس پردلیل ہے کہ مشرف دور میں جب بھارت نے پاکستان پر فوجی حملہ طے کر لیا تو وزیر اعظم بھارت واجپائی کو امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کا فون آیا، پاکستان پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں، یہ ملک کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہ ہونے کے سبب خوراک کی ضروریات کے لیے مغرب کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گا۔ تب ایٹمی صلاحیت کے خاتمے کی شرط پر اس کی مدد کی جائے گی۔
جبکہ دوسری طرف افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارا برادر ہمسایہ ملک پاکستان کے دشمنوں کا اتحادی دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کئی بار افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کر چکی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج تک سبھی وزراء اعظم نے افغانستان کو مراعات دیں تاہم جب کبھی انہوں نے افغان حکومت سے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے والے عناصر اور افغانستان میں ان کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جواب میں سرد مہری کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمانڈ سنبھالتے ہی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے منصوبوں پر کام تیز کیا۔ پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لئے باڑ لگانے کا سلسلہ جنرل راحیل شریف نے شروع کیا تھا جسے جنرل قمر جاوید باجوہ نے جاری رکھا۔ آرمی چیف نے سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ، عسکری انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں اور دیگر اہم حکام کے ساتھ افغان حکام سے مذاکرات کئے۔ ان مذاکرات میں پاکستان نے بار بار یہی مطالبہ کیا کہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے گروہوں کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔دوسری طرف روس اور چین سے افغانستان کے نصف علاقے پر کنٹرول رکھنے والے طالبان کا رابطہ افغانستان کی جنگ کو امریکی خواہش اور منصوبے کے خلاف سمت میں موڑ سکتاہے۔ اس مقصد کے تحت ایسی کارروائیوں کا خدشہ موجود رہے گا جو افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو امریکہ سے بے نیاز اور لاتعلق ہونے سے روک سکیں۔ پاکستان کے لئے طاہر داوڑ کا معاملہ ایک آزمائش کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ ریاست پاکستان کی خود مختاری تقاضا کرتی ہے کہ قتل کے پس پردہ قوتوں کو بے نقاب کیا جائے۔ پھر اس بات کا خیال بھی رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس قتل سے جو پیغام دیا گیا ہے اسے کہیں غلط نہ پڑھا جائے۔ طاہر داوڑ ایک بہادر افسر تھے جنہیں دشمن نے شہید کر دیا۔ ریاست پاکستان نے اب طے کرنا ہے کہ داخلی سکیورٹی کا نظام موثر بنانے کے ساتھ ساتھ افغان حکام کے شرپسند رویے کو کس طرح درست کرنا ہے۔ اور یہ ضروری بھی ہوگیا ہے۔
بہرکیف بھارت افغانستان گٹھ جوڑ کے پس منظر میں یہ نہیں بھلانا چاہیے کہ بھارت آج بھی اکھنڈ بھارت کی تحریک کو مہمیز دے رہا ہے، جو اپنے ساتھ اسرائیل، امریکا اور دیگر اتحادی ممالک کو شامل کر رہا ہے اور افغان قیادت کی مدد سے پاک افغان بارڈر کے نزدیکی علاقوں میں قونصل خانے قائم کرکے نہ صرف بلوچستان ، کراچی اور قبائلی علاقوں میں تخریب کاری کو ہوا دے رہا ہے بلکہ افغان فوج کو بھی ڈیورنڈ لائین پر امن کی صورتحال کو خراب کرنے پر اْکسا رہا ہے جس کا پاکستانی افواج موثر جواب دے رہی ہیں۔ بہرحال ہماری سیاسی قیادت کو اِس اَمر کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے کہ بھارتی حکومت چانکیہ کوٹلیہ کے سیاسی وچار کی نمائندگی کرتی ہے جو وقت گزرنے کیساتھ انتہا پسند ہندو سائیکی کا حصہ بن چکے ہیں۔ کوٹلیہ کا سیاسی فلسفہ ہندو ریاست کی موجودہ مودی ویژن کا بخوبی احاطہ کرتا ہے : ’’ طاقت کی ہوس اور ہمسایہ ممالک کی فتح کے جذبے کو ہمیشہ قائم رکھو۔ ہمسایہ ریاستوں سے دوستی کے جذبات محض اْنہیں دھوکے میں رکھنے کیلئے استعمال کرو اور ہمسایہ ریاستوں پر دباؤ قائم رکھنے کیلئے اِن ریاستوں کے پار کی حکومتوں سے دوستی اور اشتراک عمل کے سلسلے کو آگے بڑھاؤ تاکہ تمہاری ہیبت قائم رہے‘‘۔لہٰذایہ اَمر خوش آئند ہے کہ افواج پاکستان مودی کی کوٹلیہ پالیسی کے خلاف ہردم متحرک ہیں اور ایٹمی پاکستان کے خلاف جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے ہر دم تیار ہیں۔اور پاکستان کے خلاف ان مذموم سازشوں کا جواب دے سکتی ہے اور انشاء اللہ دیتی رہے گی۔ آخر میں محض اتنا کہنا چاہوں گا کہ جو لوگ پاکستان کے خلاف اس مذموم سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں، خواہ وہ ملک کے اندر ہیں یا باہر بیٹھ کر اس گیم کا حصہ بنے ہوئے ہیں انہیں یہ سوچنا ہوگا کہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے!!!(ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024