میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کے حکام نے کہا ہے کہ ہم سعودی عرب سے رہا کئے گئے پاکستانیوں کو ملک واپس لانے کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو دئیے گئے عشائیے کے دوران خصوصی طور پر کھڑے ہو کر کہا کہ میں آپ سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ حاجیوں کیلئے خصوصی درخواست کی کہ سعودی عرب پاکستانی حجاج کو امیگریشن کی سہولت فراہم کرے۔25 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ یہ سارے پاکستانی میرے دل کے قریب ہیں۔ ان سے اچھا رویہ اختیار کیا جائے۔وزیراعظم نے ایک اور درخواست کی کہ 3 ہزار پاکستانی جو اپنا گھربار چھوڑ کرسعودی عرب گئے۔ وہ معمولی جرائم میں جیلوں میں قید ہیں۔ میری درخواست ہے کہ ان کو رہا کیا جائے۔ جس کے بعد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کی رہائی کا حکم دے دیا۔۔۔قیدیوں سے متعلق چند ماہ قبل ہم نے متعدد کالم لکھے۔ آج اس خبر نے ہمارے کالموں کی یاد تازہ کردی جن میںہم لکھ چکے تھے کہ 1971ء سے دسمبر 2015ء تک 87 لاکھ پاکستانی ملازمت کیلئے بیرونِ ملک منتقل ہو چکے ہیں۔ بیرون ملک مختلف کام کرنے والے پاکستانی تارکینِ وطن پاکستانی معیشت کیلئے مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔گزشتہ مالی سال میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے 20 ارب ڈالر کا خطیر زرِمبادلہ پاکستان بھجوایا تھا۔ یہ رقم زرِمبادلہ کے پاکستانی ذخائر میں اضافے، افراطِ زر کو قابو میں رکھنے اور پاکستان میں ایک متمول متوسط طبقے کو برقرار رکھنے کاباعث بنتی ہے۔اس وقت سعودی عرب میں مجموعی طورپر پاکستانیوں کی تعداد 15 لاکھ ہے جن میں غیرقانونی طورپر پاکستانیوں کی تعداد 54 ہزار کے قریب ہے۔ سعودی عرب میں غیرقانونی طورپر رہائش پذیر افراد کا کہنا ہے کہ وہاں پر غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ پاکستانی سفارت خانے کا عملہ بھی تعاون نہیں کر رہا جس سے دلبرداشتہ ہوکر پاکستانی سعودی عرب کے مختلف شہروں میں سڑکوں اور پلوں کے نیچے بیٹھے ہیں اور وہ خود سعودی پولیس کے حکام کو کہتے ہیں کہ وہ انہیں گرفتار کرکے لے جائیں اور وہاں سے پاکستان بھیجنے کیلئے انتظامات کریں۔ بیرونِ ملک ملازمت کرنے والے پاکستانیوں میں سے صرف 1.76فیصد ایسے ہیں جو اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم کے متقاضی پیشوں سے وابستہ ہیں جبکہ ایک واضح تعدادمحنت مزدوری یا کم اجرت ملازمتوں سے وابستہ ہے۔
پاکستان سے باہر ملازمت کرنے والے افراد میں سے 96 فیصد افراد خلیجی ممالک میں مقیم ہیں۔ خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے مراسم سفارتی، معاشی، سیاسی اور دفاعی سطحوں پر دوستانہ رہے ہیں مگر ان ملکی اور ذاتی تعلقات کو خلیجی ممالک کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کو سفارتی مدد فراہم کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا گیا۔ گہرے سفارتی مراسم کے باوجود بیرونِ ملک سزائے موت پانے والوں کی سب سے بڑی تعداد بھی سعودی سلطنت میں مقید ہے۔ 2014ء سے اب تک سعودی عرب 40کے لگ بھگ پاکستانیوں کے سر قلم کر چکا ہے۔ دنیا بھر کی جیلوں میں قید 8500 پاکستانیوں میں سے 2393 افراد مختلف جرائم کے تحت سعودی جیلوں میں بند ہیں۔ بیرونِ ملک قید پاکستانیوں کے تازہ ترین اعدادوشمار کی دستیابی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ آسٹریلیا کی مختلف جیلوں میں 274، بنگلہ دیش اور ایران میں 252، چین میں 206، ہندوستانی جیلوں میں 306، عمان میں 629، متحدہ عرب امارات میں 1800 اور امریکہ میں 102 پاکستانی قید ہیں۔ ان پاکستانیوں کی بڑی تعداد معاشی طورپر کم حیثیت افراد پر مشتمل ہے جو اپنے لئے قانونی دفاع کی خدمات حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ ایک جانب یہ افراد اپنے تئیں قانونی مدد حاصل نہیں کر پا رہے اور دوسری جانب پاکستانی حکام ان افراد کو قانونی دفاع اور امداد فراہم کرنے کیلئے کوئی نظام وضع نہیں کر سکے۔ بدقسمتی سے پاکستان تاحال بیرونِ ملک قید پاکستانیوں کو سفارتی اور قانونی مدد فراہم کرنے کیلئے کوئی مضبوط پالیسی تشکیل نہیں دے سکا۔ قونصلر پالیسی کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ دنیا بھر میں قائم پاکستانی سفارت خانے اور قونصل خانے تمام پاکستانی قیدیوں کو یکساں نمائندگی، امداد اور سہولیات فراہم کر سکیں۔ سعودی جیلوں میں قید پاکستانیوں اور بیرونِ ملک قید زیادہ تر پاکستانی قیدیوں کو نہ صرف رابطے اور قانونی دفاع کی معقول سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں بلکہ سفارتی سطح پر بھی پاکستان ان کا معاملہ نہیں اُٹھا رہا۔ دنیا بھر میں قید آٹھ ہزار سے زائد پاکستانیوں کی مشکلات میں کمی کیلئے ضروری ہے ایک یکساں اور منضبط پالیسی تشکیل دی جائے، خلیجی ممالک کی جیلوں میں قید پاکستانی افراد کو ہنگامی بنیادوں پر قانونی نمائندگی فراہم کی جائے اور ان کے مقدمات میں قانون اور انصاف کے تقاضوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ بیرونِ ملک ملازمت فراہم کرنے والے غیرسرکاری اداروں کی نگرانی کا موثر انتظام کیا جائے تاکہ منشیات کی ٹریفکنگ کی روک تھام کی جا سکے۔ اس سنگین مسئلے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت جن پاکستانی قیدیوں کو اہم خیال کرتی ہے‘ انہیں واپس پاکستان لانے اور سزا سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔سزا کے بعد سعودی عرب سے واپس پاکستان لانے اور عافیہ صدیقی کے معاملے میں قانونی دفاع مہیا کرنے کیلئے بیس لاکھ ڈالر خرچ کیے جانے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت اگر چاہے تو اپنے شہریوں کے تحفظ کیلئے خاطرخواہ سفارتی کوششیں کرتی ہے‘ تاہم تمام پاکستانی ایسی سہولیات سے مستفید نہیں ہو پاتے۔ انڈونیشیا میں سزائے موت کے قیدی ذوالفقار علی کا شمار ان خوش قسمت پاکستانیوں میں کیا جا سکتا ہے جنہیں بچانے کیلئے حکومتی سطح پر کوشش کی گئی۔ دیگر ممالک کی جیلوں میں قید زیادہ تر پاکستانی قیدیوں کو پاکستانی قونصل خانے اور سفارت خانے کسی قسم کی مدد مہیا نہیں کرتے۔۔۔اور آج یہ کالم پڑھتے ہوئے قیدیوں کی رہائی کے حکم سے ہمیں دلی مسرت ہوئی ہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے وزیر اعظم عمران خان کی گزارش کا فوری نوٹس لیتے ہوئے سعودی عرب کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کو فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024