عالمی قیادتیں بھارت کی سرپرستی کے بجائے اسکی جنونیت روکنے کے اقدامات اٹھائیں
عمران خان کی پیشکش کے جواب میں بھی بھارتی ہرزہ سرائی‘ چین کا مذاکرات پر زور اور یواین سیکرٹری جنرل کی کردار کی پیشکش
بھارت نے وزیراعظم عمران خان کی پلوامہ حملے کی تحقیقات کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے ہرزہ سرائی کی ہے کہ یہ محض حیلے بہانے ہیں‘ وزیراعظم پاکستان کا ردعمل حیران کن ہے‘ انہوں نے نہ تو دہشت گرد حملے کی مذمت کی اور نہ ہی سوگوار خاندانوں سے اظہار افسوس کیا۔ اس سلسلہ میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم پاکستان نے پلوامہ حملے کی مذمت کے بجائے اس حملے کو بھارت کے عام انتخابات کے ساتھ منسلک کردیا۔ پاکستان کو دہشت گردوں کیخلاف بھرپور اور نظر آنیوالا ایکشن لینا ہوگا۔ پلوامہ حملے کے بعد بھارت میں پاکستان اور مسلم دشمنی کو اس انتہاء تک پہنچا دیا گیا ہے کہ وہاں کسی بھی طبقۂ زندگی سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی مسلمان شہری محفوظ نہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھی ہندو انتہاء پسندوں کے بلوئوں اور پرتشدد کارروائیوں سے بچنے کیلئے مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر مساجد میں پناہ لینے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ گزشتہ روز بھارتی ریاست راجستھان کے شہر بیکانیر میں مقیم پاکستانیوں کی کمبختی آگئی جہاں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے انہیں 48 گھنٹے کے اندر اندر بھارت چھوڑنے کا حکم دیا اور مقامی انتظامیہ کو یہ ہدایت بھی کی کہ کسی ہوٹل اور لاجز میں پاکستانی شہریوں کو نہ ٹھہرایا جائے اور بیکانیر کے شہری کسی پاکستانی کو ملازم نہ رکھیں۔ علاوہ ازیں بھارتی انتظامیہ کی جانب سے بھارتی شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بلاواسطہ یا بالواسطہ کوئی کاروبار نہ کریں اور پاکستان میں رجسٹرڈ سم کارڈز بھی استعمال نہ کریں۔
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے بھارتی انتظامیہ کی جانب سے پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹے کے اندر بھارت چھوڑنے اور راجستھان کے ہوٹلوں میں کسی پاکستانی کو رہائش نہ دینے کی ہدایت کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھارتی اقدام بھارتی میزبانی اور اسکے سیاحت دوستی کے شرمناک چہرے کو بھی بے نقاب کرتا ہے‘ یہ حکم بھارتی جنگی جنون اور الیکشن پر جذبات ابھارنے کا مظہر ہے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ بھارت بین الریاستی اقدار کی پاسداری کریگا۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں جاری ہیں اور یورپی پارلیمنٹ میں بھی مقبوضہ کشمیر کی مخدوش صورتحال پر بحث کی گئی ہے جس کے دوران یورپی ارکان پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں مظالم اور کشمیریوں کا قتل عام بند کرے۔ یورپی ارکان پارلیمنٹ نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنیوالے ممالک سے تجارت نہ کی جائے۔ بھارت کے اوچھے ہتھکنڈوں کا اندازہ اس امر سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے ترجمان دفتر خارجہ پاکستان ڈاکٹر محمد فیصل کا ذاتی ٹویٹر اکائونٹ بھی معطل کرادیا۔ ایسا انکی جانب سے کشمیر میں بھارتی مظالم کو اجاگر کرنے پر کیا گیا ہے۔ اسی طرح بھارتی ہیکرز نے دفتر خارجہ پاکستان کی ویب سائٹ پر بھی سائبر حملہ کیا جسے ناکام بنادیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں پاکستانی ہائی کمیشن کے عملہ اور انکے خاندانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور ہائی کمیشن کی ہیلپ لائن پر مغلظات بکی جاتی ہیں۔
پاکستان کی سلامتی کیخلاف شروع دن سے جارحانہ عزائم رکھنے والا بھارت ’’چور نالے چتر‘‘ کی عملی مثال ہے جو اپنے مقاصد کے تحت اپنے شہریوں کے اہم مقامات اور مقبوضہ کشمیر ہی نہیں‘ پاکستان کے اندر بھی خود دہشت گردی کراتا ہے اور پھر اس کا پاکستان پر ملبہ ڈال کر جنگی جنون کو بھڑکاتا اور اقوام عالم میں پاکستان کیخلاف زہریلا پراپیگنڈا کرتا ہے۔ اسکی بدنیتی پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے اور کشمیر پر اپنا تسلط مستقل طور پر قائم کرنے کی ہے س کیلئے ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ بھارتی قیادتیں ہمہ وقت اپنی سازشوں کے تانے بانے بنتی رہتی ہیں جبکہ پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں تو ان کا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ مہابھارت کے پرچارک ان بھارتی لیڈران کو درحقیقت تقسیم ہند اور ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے تشکیل پاکستان آج تک برداشت ہی نہیں ہوئی جس کے ساتھ انہوں نے شروع دن سے خدا واسطے کا بیر مول لے کر اسے دنیا کے نقشے سے ناپید کرنے کے خواب دیکھنا شروع کر دیئے۔ اس مقصد کیلئے ہندو لیڈرشپ نے برطانوی وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن سے سازباز کرکے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور وہاں اپنی افواج داخل کرکے اس پر تسلط جمالیا۔ پاکستان کو کمزور کرنے کی بھارتی برطانوی سازباز کے تحت ہی پاکستان کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی نے کشمیر سے بھارتی فوجیں نکالنے کیلئے قائداعظم محمدعلی جناح کے احکام کی تعمیل سے بھی انکار کر دیا اور وہاں بھارتی فوجوں کو اپنے قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے بعد کشمیر کا تنازعہ طے کرانے کیلئے بھارتی وزیراعظم نہرو خود ہی اقوام متحدہ چلے گئے تاہم جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا اور مقبوضہ وادی میں استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی تو بھارت ان قراردادوں سے بھی منحرف ہوگیا۔
یہ امر واقع ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے نمائندہ عالمی ادارہ اقوام متحدہ خود بھی سنجیدہ نہیں تھا ورنہ یہ مسئلہ کبھی طول اختیار نہ کرتا اور بھارت پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کا دبائو ڈلوا کر اسے استصواب پر مجبور کردیاجاتا جبکہ یہ مسئلہ طول اختیار کرنے کے باعث بھارت کو کشمیر کو اپنی ریاست بنانے اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشیںپروان چڑھانے کا بھی نادر موقع مل گیا۔ چنانچہ عالمی قیادتوں کے منافقانہ طرز عمل سے بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوگئے جس نے ایک طرف کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اختیار کرنا شروع کئے تو دوسری جانب پاکستان پر جارحیت کے ارتکاب اور آبی دہشت گردی کی منصوبہ بندی بھی کرلی‘ نتیجتاً پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کشمیری عوام نے چونکہ اپنا مستقبل پہلے ہی پاکستان کے ساتھ وابستہ کرلیا تھا جس کی بنیاد مسلم برادرہڈ پر استوار ہوئی تھی اس لئے انہوں نے بھارتی فوجوں کے آگے سینہ سپر ہو کر اپنے کاز کیلئے جانی اور مالی قربانیاں دینے سے بھی دریغ نہ کیا اور اپنے پائے استقلال میں کبھی لغزش پیدا نہ ہونے دی جبکہ پاکستان نے بھی اپنے اصولی موقف کے تحت ہر علاقائی اور عالمی فورم پر کشمیریوں کی حمایت سے کبھی گریز نہیں کیا اور ان کا دامے‘ درمے‘ سخنے ساتھ نبھاتے چلا آرہا ہے جس کیلئے مقبوضہ کشمیر میں بھی اور پاکستان کے اندر بھی ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے بلند ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت کو یہی بات گوارا نہیں کیونکہ وہ کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی سے دستبردار ہونے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہے۔ وہ اس ہٹ دھرمی میں پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی اور جنگی جنون بڑھاتا ہے تو درحقیقت وہ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی پر خطرے کی تلوار لٹکاتا ہے۔ اس تناظر میں یہ عالمی قیادتوں اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کے جنگی جنونی ہاتھ روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور یواین قراردادوں کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر حل کرائیں تاہم بیشتر عالمی قیادتیں اپنا وزن بھارت کے پلڑنے میں ڈال کر اسکے جنگی جنون کو ہلہ شیری دیتی نظر آتی ہیں۔ صرف چین وہ واحد ملک ہے جو پاکستان کے حق میں اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کیخلاف ہر علاقائی اور عالمی فورم پر ڈٹ کر کھڑا نظر آتا ہے کیونکہ خود اسے بھی بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کا اروناچل پردیش میں تلخ تجربہ ہوچکا ہے۔ اسکے برعکس امریکہ اس خطے پر غلبے کی نیت سے بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دیکر اسکی عملاً سرپرستی کررہا ہے جس نے سپرپاور ہونے کے زعم میں اقوام متحدہ کو بھی اپنی دست نگر بنا رکھا ہے چنانچہ یہ عالمی ادارہ فلسطین کی طرح مسئلہ کشمیر پر بھی اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کے معاملہ میں مجبور محض ہے۔
بھارت کے حالیہ جنگی جنون کے دو واضح پس منظر ہیں۔ ایک یہ کہ بھارتی لوک سبھا کے انتخابات میں حکمران بی جے پی کو اپنی شکست نظر آرہی ہے اس لئے ان انتخابات سے پہلے پہلے وہ پاکستان دشمنی کی فضا گرما کر ہندو ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتی ہے۔ دوسرا یہ کہ عالمی عدالت انصاف میں بھارتی دہشت گرد کلبھوشن کی سزائے موت کیخلاف بھارت کی دائر کردہ اپیل اور ضمانت کی درخواست کی سماعت شروع ہوچکی ہے جس میں مودی سرکار کو اپنی کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا اس لئے اس کیس کی سماعت سے پہلے پاکستان پر نئی دہشت گردی کا ملبہ ڈال کر مودی سرکار نے ممکنہ طور پر اس کیس کا اپنے حق میں پانسہ پلٹانے کی سازش کی۔ پلوامہ خودکش حملہ کے اب تک جو حقائق و شواہد سامنے آئے ہیں وہ ان بھارتی گھنائونی سازشوں کی چغلی کھاتے ہی نظر آتے ہیں مگر اس جنونی کھیل میں بھارت درحقیقت علاقائی اور عالمی امن و سلامتی سے کھیل رہا ہے۔ چین نے گزشتہ روز اسی تناظر میں پاکستان اور بھارت پر اپنے تنازعات کے حل کیلئے جلد مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا ہے اور وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے بھی اسی تناظر میں اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ وہ بھارتی دھمکیوں کا نوٹس لے اور اسکی جنونیت روکنے کے اقدامات اٹھائے جس کے جواب میں یواین سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے کہا کہ دونوں ممالک تیار ہوں تو وہ انکے مابین تصفیہ کراسکتے ہیں۔ یہی درحقیقت اس عالمی ادارے کی بے بسی اور منافقت ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے بھارت پر ازخود دبائو ڈالنے پر آمادہ ہی نہیں۔
اصولی طور پر تو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو تباہی سے بچانے کیلئے پاکستان بھارت کشیدگی ختم کرانے میں اقوام متحدہ کو خود آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہیے مگر یواین سیکرٹری جنرل اس کیلئے محض اپنی معصوم خواہش کا اظہار کرتے ہی نظر آتے ہیں جبکہ امریکہ دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھانے پر تلا بیٹھا ہے جس کے محکمہ خارجہ کی جانب سے گزشتہ روز بھی پاکستان سے ہی تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ پلوامہ واقعہ کے ذمہ داروں کو سزا دے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے پاس اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے کے سوا اور کیا آپشن رہ جاتا ہے۔ چنانچہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اپنے پالیسی بیان میں دوٹوک الفاظ میں باور کرادیا کہ بھارت نے حملہ کیا تو اس کا فوری اور بھرپورجواب دیا جائیگا۔ اگر عالمی ادارے اور قیادتیں بھارتی جنونیت پر ہی صاد کرچکی ہیں اور اسکے عزائم کے آگے بند باندھنے پر آمادہ نہیں تو بھارت اپنی جنونیت سے مجبور ہو کر علاقائی اور عالمی تباہی کی نوبت لا کر رہے گا۔ پاکستان بہرصورت آج بھی امن کی خاطر بھارت سے کسی بھی سطح کے مذاکرات کیلئے تیار ہے مگر تالی ایک ہاتھ سے تو نہیں بجا کرتی۔