جمعرات‘15 ؍ جمادی الثانی 1440ھ‘ 21 ؍ فروری 2019ء
کراچی میں خزانے کی تلاش میں صحن میں کھدائی کرنے والا پیرنی اور مزدوروں سمیت گرفتار
دولت کی ہوس کس کو نہیں۔ پیسے سے محبت کون نہیں کرتا۔ جسے دیکھو صبح سے شام تک رات سے دن تک روپے کمانے کے چکر میں لگا رہتا ہے۔ ساری دنیا اسی کام میں مشغول ہے۔ اب اگر کوئی روپے پیسے کے اس گھن چکر میں پھنسے کسی غریب کو ہی کیا امیر کو بھی یہ سپنا دکھادے کہ اس کے گھر فیکٹری یا باغ میں خزانہ دفن ہے تو وہ کتنا ہی بھری تجوری والا کیوں نہ ہو فوری طور پر نہ سہی بعد میں ضرور اس خزانے کی تلاش میں مصروف ہو جائے گا۔ وہ بھی اس طرح کہ کسی اور کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ سو اب اگر امیر بندہ ا یسا کر سکتا ہے تو غریبوں کو تو ہتھیلی میں خارش ہو یا دائیں آنکھ پھڑکے تو کہیں سے پیسہ آنے کی یا ملنے کی اُمید پیدا ہو جاتی ہے۔ خزانے کی تلاش کا یہ دھندا ہمارے ڈھونگی پیروں فقیروں کی وجہ سے بھی عروج پاتا ہے۔ سادہ لوح غریب ان فراڈی بابوں کی باتوں میں آ کر بچوں کو ذبح کرنے قبروں پر بیٹھ کر عمل کرنے اوربچوں کو ذبح کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ اب تو خیر سے اس کارخیر میں پیرنیاں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں خاص طور پر ان ملنگنیوں اور مستانیوں کا کافی زور ہے۔ یہ شاطر عورتیں نہایت مہارت سے اب عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی بیوقوف بنانے لگی ہیں ۔ کراچی میں گھر کے صحن میں 35 فٹ گہرا گڑھا کھود کر خزانہ نکالنے کا حکم دینے والی بھی ایک پیرنی ہی تھی۔ اب کوئی اس مالک مکان سے پوچھے کہ اگر یہ پیرنی اتنی ہی پہنچی ہوئی تھی تو خود یہ اپنے حالات کیوں درست نہیں کر سکی کہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر پیسے بٹورتی ہے۔ اب خزانہ نکلے نہ نکلے مگر زمین گہرائی تک کھودنے کے بعد کم از کم پانی تو ضرور نکل سکتا ہے اس لیے کھدائی جاری رکھی جائے مگر خطرہ یہ بھی ہے کہ کہیں یہ مکان اپنے ساتھ آس پڑوس کے مکانات کو لے کر اسی گڑھے میں نہ گر جائے۔
٭٭٭٭٭
سعودی عرب میں قید پاکستانی رہائی کی خوشی میں شاداں
سعودی عرب کی جیلوں میں بند ان قیدیوں کی خوشیاں دیکھنے لائق ہیں جنہیں ولی عہد کے فرمان کے بعد رہائی کا دن دیکھنا نصیب ہو رہا ہے۔ اس میں سے اکثر لوگ وہ ہیں جو معمولی جرائم یا غلطیوں پرجیلوںمیں بند ہیں یا غیر قانونی طور پر جعلی اقامہ اور کام کاج پر قید میںہیں۔ اب ان اکیس سو سات افراد کو لانے کے لیے پی آئی اے کو خصوصی پرواز کا یا پروازوں کا بندوبست کرنا ہو گا۔ حکومت آج کل سادگی اور کم خرچ بالا نشینی کے اصولوں پر عمل پیرا ہے۔ وہ اگر چاہے تو ان قیدیوں کو یکمشت لانے کے لیے ارزاں نرخوں پر سمندری جہاز بھی استعمال کر سکتی ہے۔جس سے ہوائی سفر کی آدھی لاگت آئے گی۔ یہ قیدی بھی جیل سے رہائی کے بعد حقیقی معنوں میں کھلی آزاد فضائوں میں سانس لے سکیں گے۔ سعودی عرب کی کسی جیل میں قید ان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے ایک دوسرے کو مبارکبادیں دینے کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی جہاں بھی ہوں اپنا کام دکھا کر ہی رہتے ہیں۔ اصل فکر اب حکومت کو کرنی چاہئے کہ یہ 21 سو قیدی جب پاکستان آئیں گے تو یہاں کیا کریں گے۔ جو لوگ سعودی عرب کے سخت قوانین سے نہیں ڈرے انہیں ہمارے پھسپھسے قانون سے کیا خوف آئے گا۔ اب پہلے ہی ہمارے ہاں لاقانونیت کا بازار گرم ہے‘ کہیں یہ سوختنی لکڑیاں آ کر اور ا س کی آنچ تیز نہ کر دیں لیکن یہ بھی ہو سکتا سعودی جیلوں میں رہ کر یہ سب پنج وقتے نمازی بن کر پرہیز گار ہو گئے ہوں ۔لیکن اگرایسا ہوتا تو ہمارے اکثر حاجی نمازی اور صوفی تجارت سے لے کر عام معاملات تک میں جو کچھ کر رہے ہیں وہ کچھ نہ کر رہے ہوتے۔
٭٭٭٭٭
مجھے سنے بغیر ہی مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ بلاول زرداری
لگتا ہے بلاول صاحب کو عدالتوں میں پیش ہونیکی بہت تاولی ہے مگر عدالتیں ہیں کہ اس طرف توجہ ہی نہیں دے رہی۔ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’عدالت مجھے بلائے میری سنے۔‘‘ مگر عدالت لگتا ہے ایسے کسی موڈ میں نہیں ہے۔ عدالت نے انہیں نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کی اجازت دی ہے۔ اب وہ درخواست کی سماعت کے دوران پیش ہو کر اپنی خواہش پوری کر سکتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت ان کے وکیل کھوسہ صاحب نہایت مہارت سے ان کا کیس لڑ رہے ہیں۔ ان کا مئوقف ہے کہ بلاول تو ابھی معصوم بچہ ہے۔ حیرت ہے ایک اچھے بھلے جوان آدمی کو وہ بچہ کیسے کہہ رہے ہیں۔ معصومیت تو بلاول جی کے چہرے پر ضرور ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بھولے بھالے بھی ہیں۔ خیر سے وہ اپنے والد محترم کے کاروبار کے برابر کے شریک ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ سیاستدان ہیں۔ کاروباری تجربہ بھی رکھتے ہیں ۔ مگر وہ بات نہیں بن رہی جو پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کا خاصہ ہے۔ اس لیے اب وہ عدالت کا نام لے کر وہاں جانے کا عزم ظاہر کر کے عوامی بننے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے کیس کی سماعت پر جب عدالت کا رخ کریں گے تو بھٹو اور بی بی کے دیوانے عدالت کے باہر دمادم مست کرتے نظر آئیں گے۔ اسی لیے تو وہ کیسوں کی سماعت سندھ میں کرانے کا مطالبہ بھی تواتر سے دہرا رہے ہیں۔ ہے نہ غورکرنے کی بات…
٭٭٭٭٭
بھارتی تاجروں نے پاکستان سے تجارت بند کرکے اپنی رقم واپس مانگ لی
بھارت سے تجارت کے شوق میں گھلنے والے ذرا اپنے سگوں کے کرتوت دیکھ لیں کس طرح وہ اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں ذرا سی تلخی کیا آ گئی ان تجارتی بھائیوں نے فوراً مال روکو اور ہمارے ایڈوانس میں لیے پیسے واپس کرنے کی مانگ شروع کر دی ہے۔ اب جو کروڑوں کا پاکستانی مال بارڈر پر کھڑا خراب ہو رہا ہے۔ اس کا کیا ہو گا۔ مزہ تو جبھی ہے کہ پاکستانی بھی جوابی وار کریں اور رقم واپس دینے سے انکار کر دیں کیونکہ ناگہانی اور ہنگامی حادثات کی ذمہ واری کسی پر عائد نہیں ہوتی۔ پاکستان کونسا گھاٹے میں رہے گا۔ آلو ٹماٹر پیاز پہلے سے پاکستان میں اچھی فصل ہونے کی وجہ سے ہم بھارت سے منگوانا چھوڑ چکے ہیں جوتھوڑا بہت آتا ہے اگر وہ بھی بند ہو جائے تو کیا ہو گا۔ لوگ پہلے ہی ٹماٹر کی جگہ دہی کے استعمال کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں۔ الٹا بھارت میں ٹماٹر اور پیاز بھی آلو کی طرح ٹکے سیر ہو جائے گا اور آلو کے کاشتکاروں کی طرح ٹماٹر اور پیاز کے کاشتکار بھی سڑکوں پر مودی جی کا ماتم کرتے نظر آئیں گے۔ بھارتی بنیئے کو اپنی رقم ڈوبتی دیکھنا کہاں برداشت ہو گا۔ پاکستانی کاشتکار بھی خوش ہیں کہ انہیں اپنی منڈی میں کھل کرکھیلنے کا موقع ملے گا۔ سیمنٹ والے پریشان ضرور ہوں گے کیونکہ بھارت میں سیمنٹ کی مانگ بہت ہے۔ اب ان کا سیمنٹ وہاں کیسے جائے گا۔ طلب و رسد کے قانون کو دیکھا جائے تو اُمید ہے کہ ملک میں سیمنٹ کی قیمت کم ہوگی ۔ البتہ ٹماٹر پیاز اور آلو سر پر چڑھ سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭