وزیراعظم عمران خان نے یہ بات بھی بڑی سادگی لیکن پوری قوت سے کہہ دی کہ بھارت نے اگر جارحیت کی تو ہم سوچیں گے نہیں بلکہ منہ توڑ جواب دیں گے۔
پاکستان کا نیا فلسفہ جنگ واشگاف انداز میں بیان کردیا گیا ہے۔ اگر مگر کے دلائل تراشنے والے اور ‘‘گلاں دی کھٹی کھانے والے ’’ برائے فروخت دانشور منہ چھپا رہے ہیں۔ دانش فروشی کا کاروبار جناب عمران کے قوم سے خطاب نے الٹ کر رکھ دیا ہے۔ وزیراعظم ہو تو عمران خان جیسا’ سیدھا سادہ’ لگی لپٹی رکھے بغیر بھارت کو جواب دینے والا اور غیرملکی مہمان سے بات کرتے ہوئے غریبوں کے لئے ریلیف مانگنے والا’ کپتان اب وزیراعظم بن کر پورے پاکستان کا کپتان بن چکا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان بہت سوں کے سینے پر مونگ دل گیا۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو پہلا قدم قرار دے کر سعودی عرب نے ان بدنیتوں کو ٹکا سا جواب دے دیا ہے جو اس زعم میں مبتلا تھے کہ صحرا نشین بدوؤں سے ان کے ‘‘گھریلو’’ مراسم ہیں اور ان کی ’’کمی‘‘ کو کوئی پورا نہیں کرسکتا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کا ’ میں سعودی عرب میں آپ کا سفیر ہوں‘ کہہ کر گویا دشمنوں کے سینے پر ’’ایٹم بم‘‘ مار دیا، پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کا یہ پہلو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ عوام کا سب سے زیادہ پرجوش اور خوش کْن ردعمل دو ہزار ایک سو سات پاکستانی قیدیوں کی سعودی جیلوں سے رہائی کے شاہی فرمان پر تھا۔
دو روزہ دورہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ اس کے اثرات ہمہ گیر ہیں۔ خطے میں گھات لگائے دشمن تو اس دورے کی تاک میں تھے ہی لیکن پاکستان کے اندر سیاسی جھیل میں تیرتے مگرمچھ بھی منہ کھولے کسی شکار کے منتظر تھے۔ مجموعی طورپر جو تاثر بنا وہ عمران خان اور شہزادہ محمد کے درمیان قربت کی نئی شناخت کا تھا۔دونوں ممالک کی قیادت میں ایک خصوصی یا غیرمعمولی تعلق دیکھا۔ کسی زمانے میں ایک اسلامی بلاک کی تشکیل نے پاکستان میں بالخصوص اور اسلامی دنیا میں عوام کو بالعموم ولولہ تازہ دیا تھا، نئی امیدیں جگائیں تھیں اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ تک کی پیشگوئیاں ہونے لگی تھیں۔
لاہور میں اسلامی ممالک کے ستاروں کی کہکشاں آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل بن عبدالعزیز السعود، شام کے صدر حافظ الاسد، لیبیائ کے صدر کرنل معمر قذافی، الجیریا کے پہلے صدر اور آزادی حریت کے مسلح مجاہد صدر ھواری بومیدین، 1971 سے 1978ء تک ایران کے وزیر خارجہ رہنے والے عباس علی خالط باری، ملائیشیاء کے وزیراعظم تْن عبدالرزاق، انڈونیشیاء کے وزیراعظم آدم ملک، فلسطین سے یاسر عرفات کے علاوہ شیخ مجیب بھی شریک ہوئے تھے۔ اس موقع پر ایک تاریخی یادگار تصویر اب بھی ماضی کے دریچے وا کردیتی ہے جس میں موجود اسلامی دنیا کے وہ تمام رہنما ایک ایک کرکے قتل کردئیے گئے یا یہ کہا جائے کہ نشان عبرت بنادئیے گئے۔
اس مرتبہ شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ بھی کچھ اسی تاریخی جھروکے کی یاد ہرانے کا باعث بنتا دکھائی دیا۔ عالمی سطح پر ہونے والی سازشوں، مشرق وسطی میں پھیلی بے چینی اور شورش، کئی تنازعات میں الجھی امت مسلمہ کے اس منفی منظر نامے میں پاکستان اور سعودی عرب کی قیادت کا اکٹھ مثبت پہلو بھی رکھتا ہے۔ عمران خان نے روایتی کروفر اور وزیراعظم کے لئے مخصوص طرز عمل سے ہٹ کر عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کچھ اس انداز سے کیا کہ پہلے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد کی گاڑی خود چلاکر انہیں حیران کردیا اور اس مرتبہ شہزادہ محمد کی گاڑی بھی خود چلائی جس نے ولی عہد کو خاصا متاثر اس لئے بھی کیا کہ حالیہ منظر نامے میں وہ طعنہ وتشنیع کے تیر ہر جانب سے جھیل رہے ہیں۔ ایسے میں اسلامی دنیا کی واحد جوہری قوت اور دنیا میں ایک سٹار کے طورپر مشہور عمران خان نے جس طرح ان کی پزیرائی کی، وہ خاصی متاثر کن اور روایت سے ہٹ کر ذاتی اثر لئے ہوئے تھی۔
پہلی بار ایسا منظر دیکھنے میں آیا کہ عمران خان نے وزیراعظم کے منصب سے سعودی ولی عہد کو کسی ذاتی مل، جائیداد، رہائی یا پھر نجی رعایت کے حصول کی درخواست پیش کرنے کے بجائے جس سادگی اور غیرسفارتی انداز میں برملا سعودی قید میں سسکتے بلکتے پاکستانیوں کے لئے جھولی پھیلائی، عرب کے عقاب کے لقب سے متصف اور قیمتی گاڑیوں، کشتیوں اور جہازوں کا شوقین شہزادہ انکار نہ کرسکا اور دوہزار ایک سو سات پاکستانیوں کی قفس سے رہائی کا پروانہ جاری کردیا۔ رات کھانے پر عمران خان نے جو دردمندی دکھائی تھی، اگلے روز شہزادے کی دریا دلی پر وزیراعظم عمران خان نے جو تبصرہ کیا، وہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ اور پراثر ثابت ہوا۔ انہوں نے مہمان کو بتایا کہ پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے آپ کے اعلان کے بعد سے میرے فون پر اتنے پیغامات آئے ہیں کہ اگر آپ یہاں انتخاب لڑیں تو یقیناًمجھ سے زیادہ ووٹ آپ کو ملیں گے جس پر ولی عہد نے مسکراہٹ سے ان کے اس ہدیہ تبریک کا جواب دیا۔ شاید یہی وہ انداز تھا جس سے متاثر ہوکر ولی عہد نے وزیراعظم عمران خان کو یقین دلایا کہ ’وہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر ہیں۔‘
وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو بھی سادگی سے بھرپور اپنے خطاب میں دوٹوک جواب دیا جس کی عوام میں بے حد پزیرائی ہوئی ہے اور مجموعی ردعمل بہت مثبت ہے۔ عمران خان نے لکھی ہوئی تقریر نہیں کی جو ان کے پراعتماد انداز کا برملا اظہارتھا۔ انہوں نے بنیادی طورپر وہ تمام باتیں کھرے اور واشگاف انداز میں بیان کیں، جنہیں لچھے دار بنا کر بھی پیش نہیں کیاجاتا تھا۔ بھارت کے اندر سے خصوصی ’’محبت‘‘ پالنے والوں کو سیدھی بات کرتے دقت ہوتی تھی۔ عمران خان کو شاید ایسا کوئی مسئلہ نہیں، اسی لئے انہوں نے جو خطاب کیا اس میں بھارت کو الفاظ کی اچھل کود کے بجائے تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی گئی اور پلوامہ واقعہ کے ٹھوس شواہد طلب کئے گئے ہیں۔
دوسری بات انہوں نے بڑے منطقی انداز میں اس سوال کو اٹھا کر بھارتی قیادت کو سوچنے کی دعوت دی ہے کہ پاکستان معاشی پرواز کررہا ہے، اس بہتری کی سمت جاری سفر کو ہم ایسے کسی واقعے سے کھوٹا کیوں کریں گے؟ پھر انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ اس واقعہ سے فائدہ کسے ہوا اور نقصان کسے ہوا؟ بلاشبہ اس واقعہ سے سب سے زیادہ فائدہ خود مودی جیسا موذی اٹھانے کی کوشش میں ہے کیونکہ سیاسی بساط پر اب کے تجزیات کے مطابق کانگریس اسے شہہ مات دینے کی پوزیشن میں نظرآرہی ہے۔ بی جے پی کی مقبولیت اور ’شائننگ انڈیا‘ کے دلفریب وعدوں اور پْرفریب نعروں کا بھارتی عوام میں جنازہ نکل چکا ہے۔ بھارتی جنتا پانچ کروڑ نوکریوں اور دیگر انتخابی نعروں کے منتظر رہ گئے اور پانچ سال کی حکومتی مدت پلک جھپکتے گزرگئی۔ کسانوں، مزدوروں سے لے کر اقلیتوں تک سب ہی اس فتنہ پرداز گروہ سے نجات کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے یہ بات بھی بڑی سادگی لیکن پوری قوت سے کہہ دی کہ بھارت نے اگر جارحیت کی تو ہم سوچیں گے نہیں بلکہ منہ توڑ جواب دیں گے۔ ان کا یہ سادہ جواب اسی سادگی اور بے ساختگی لیکن ٹھوس عزم کا حامل تھا جس نے 1965ء میں فیلڈمارشل ایوب خان کی سادہ، مختصر لیکن بہت ہی پراثر تقریر کی یاد دلادی۔
پاکستان اپنی معاشی حالت سدھارنے کے لئے جو جتن کررہا ہے، دشمن اتنے ہی زیادہ مضطرب ہورہے ہیں، بے چین اور بے قرار ہوکر نت نئی چالیں چل رہے ہیں۔ جنگ کے طبل بجائے جارہے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو پیشگی خط لکھ کر بھارت کی طنابیں کھینچنے اور اسے کسی جنگی حماقت یا بے وقوفی سے باز رکھنے کے لئے کردار ادا کرنے کو کہا ہے۔ مودی کہہ چکا ہے کہ اب باتوں کو وقت گزر گیا۔ اب سیاسی لحاظ سے اگر وہ جنگی چال نہیں چلتا تو اس کے لئے الیکشن میں ایک نئی مشکل پیدا ہوجائے گی۔ جنون بھڑکانا آسان لیکن پھر اسے قابو میں واپس لانا ناممکن ہوتا ہے۔ یہی بات عمران خان نے مودی کو یہ کہہ کر سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جنگ آپ شروع تو کرسکتے ہیں لیکن پھر اس کا نتیجہ آپ کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ عالمی تجزیات میں یہ کہاجارہا ہے کہ بھارتی فوجی جارحیت کے جواب میں پاکستان اپنے دفاع میں پچیس کلومیٹر کے دائرے میں اثر دکھانے والے چھوٹے جوہری ہتھیار استعمال کرسکتا ہے جس سے بھارت کو شدید تباہی وبربادی کا سامنا کرنا پڑے گا اور جنوبی ایشیاء کے خطے میں بدقسمتی بین ڈال رہی ہوگی۔
پاکستانی داخلی محاذ پر سیاستدانوں کو اس نازک گھڑی میں تیرے میرے کی گردان میں پڑنے کے بجائے کشمیر اور پاکستان کے دفاع کے قومی مفاد میں یک جان دوقالب کی زندہ وتابندہ مثال بننا ہوگا۔ باہمی سیاست کے بہت مواقع ملیں گے لیکن پاکستان کی سلامتی، دفاع اور کشمیر جیسے امور پر ایسا کوئی بھی اقدام گناہ کبیرہ ہے جس سے خدانخواستہ پاکستان یا کشمیر کاز کو گزند پہنچنے کا احتمال ہو اور دشمن اس پر تالیاں پیٹنے کا کوئی موقع پائے۔
ٹپارقزط؎گ
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024