ایک طرف وزیراعظم ہائوس کا خرچہ 30 فیصد کر دیا‘ دوسری وزارتیں بھی 10 فیصد کمی لا رہی ہیں۔ وزیراعظم چائے اور بسکٹ کے علاوہ کسی کو کچھ نہیں دیتے۔ دوسری جانب پنجاب حکومت کو پنجاب اسمبلی میں 40 قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں اور 37 پارلیمانی سیکرٹریوں کیلئے 77 نئی گاڑیاں فوراً مہیا کرنی ہیں۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے 3 درجن سے زائد قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین نئی گاڑیاںدفاتر اور پٹرول حاصل کریں گے۔ اگلے 7 سالوں میں پانی کا شدید بحران آسکتا ہے۔ ڈیم نہ بنایا تو آنے والی نسلوں کو نہیں بچا سکیں گے۔ اب تک دس ارب جمع ہوئے ہیں۔ سعودی عرب بھاشا اور مہمند ڈیم کیلئے فنڈز دے گا۔ سعودی عرب کھربوں کی سرمایہ کاری کرے گا۔ پاور سیکٹر میں 7‘ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ سعودی ولی عہد شہزدہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان سے 21 کھرب روپے معاہدوں نے دو طرفہ تعلقات کو ناقابل شکست بنا دیا ہے۔ سب سے زیادہ 26 لاکھ پاکستانی تارکین وطن سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ سعودی عرب نے پاکستان میں ہزاروں مکانات بنوائے۔ صاف پانی کی فراہمی اور صحت وتعلیم کے کئی منصوبے مکمل کروائے۔ جب بھی کوئی قدرتی آفت یا کڑا وقت آیا تو سعودی عرب سب سے پہلے مدد کو پہنچا۔ ولی عہد کا ویژن 2030ء سعودی عرب کو صف اول کے صنعتی ممالک میں شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔ مسلم دنیا میں دہشت گردی کے خلاف 41 ملکوں کے فوجی اتحاد کی قیادت سعودی عرب کر رہا ہے۔ جنرل راحیل شریف ہی اتحادی فوج کے سپہ سالار ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان ایک بار پھر غیرملکی فوجی اتحاد کا ہراول دستہ بن جائے گا۔ ہم خود کو کسی بھی صورت میں امریکہ اور سعودی عرب سے دور نہیں رکھ سکتے۔
پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے انعقاد کی راہ ہموار کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے جس کے بعد ہمیں آئی ایم ایف سے قربت نصیب ہوئی ہے۔ بڑی تبدیلیاں قریب آرہی ہیں۔ شہبازشریف کی رہائی کے بعد بڑے میاں صاحب بھی آزاد فضا میں سانس لینے والے ہیں۔ زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں توسیع ہوتی جا رہی ہے۔ ڈیل اورڈھیل نہیں دی جا رہی‘ لیکن ڈھیل کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ سوشل میڈیا کو بھی لگام دی جا رہی ہے۔ انتہاپسندی کا پرچار‘ دھمکیاں‘ نفرتیں‘ فتنوں کا پھیلائو‘ ملک کو کدھر لے جا رہا ہے۔ دلیل‘ مکالمے اور مباحثے سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ بیرونی ممالک سے دوستی کے حوالے سے وزیراعظم کی ترجیحات سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے نمبر پر سعودی عرب‘ دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات‘ تیسرے نمبر پر چین‘ چوتھے نمبر پر ملائشیا اور پانچویں نمبر پر ترکی ہے۔ امریکہ یا یورپ جانے کا شوق ہے نہ جلدی۔
ملک کی معیشت کو درست کرنے کیلئے حکومت ابھی تک کوئی پلان اور پالیسی نہیں بنا سکی۔ 6 ماہ میں سابق حکمرانوں کے خلاف کرپشن کا ایک کیس بھی نہیں لا سکی۔ آخری ٹھکانہ آئی ایم ایف ہی کیوں بنا؟ وزراء کی بیان بازی سے معیشت کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ بیورو کریسی کو شفاف بنانے کا عمل کب شروع ہوگا۔ 6 ماہ میں ملکی قرضے 100 ارب ڈالر کیسے ہوگئے۔ مہنگائی کی شرح دوگنی کیسے ہوگئی۔ 800 افسران کی لسٹ کہاں گئی جن پر مختلف الزامات تھے۔ ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کی تعمیر فی الحال تو دکھائی نہیں دے رہی۔ روپے کی قدر میں 35 فیصد کمی کیوں ہوئی؟
2008ء سے 2018ء تک این آر او والے حکمران رہے۔ زرداری اور (ن) لیگ کی حکومتوں نے 5‘5 سال پورے کئے اور قرض 30 ہزار ارب تک پہنچا دیا۔ دو ارب سوئس اکائونٹس کا پیچھا کرنے پر خرچ ہوئے۔ ہاتھ ایک پیسہ نہ آیا۔ آئی ایم ایف سے نقصان والی ڈیل نہ چاہنے کے باوجود حکومت نے پہلے ہی آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر دیں۔ اس کے بعد آئی ایم ایف کی ایم ڈی کرسٹین لوگارڈ سے عمران خان نے دبئی میں ہینڈ شیک کیا۔ پاکستان نے سبسڈی ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ کوئی وزیراعظم خود آئی ایم ایف کے پاس گیا۔ آئی ایم ایف کے پیکیج سے پہلے ہی حکومت پر سبسڈی بشمول حج ختم کر چکی ہے۔ بجلی‘ گیس کی قیمتوں میں پہلے ہی اضافہ کرکے آئی ایم ایف کو اپنا راضی نامہ دے چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب‘ امارات اور چین سے ملنے والے قرضے بہت سستے اور کسی شدید منفی شرط کے بغیر ہیں۔ چھ ماہ سے قومی اسمبلی میں کوئی نیا قانون منظور نہیں ہو سکا۔ یہ دنیا کی کیسی جمہوریت جہاں نیب جیل سے آکر ایک آدمی پبلک اکائونٹس کمیٹی چلا رہا ہے اور نیب کو طلب کرتا ہے۔ شیخ رشید تمام تر کوشش‘ ضد اور دبائو کے باوجود پی اے سی کاحصہ نہ بن سکے۔ ایسا ہو جاتا تو کمیٹی سچ مچ اکھاڑہ بن جاتی۔ پی اے سی میں تمام کام اتفاق رائے سے ہوتا ہے۔ شہبازشریف نیب کارروائی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا پی ٹی آئی میں واقعی 3 گروپ بنے ہوئے ہیں؟ زبوں حال ملکی معیشت کی بحالی کیلئے تقریباً 6 ارب ڈالر کا آئی ایم ایف پیکیج اگلے مالی سال کے بجٹ کا حصہ ہوگا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف معاشی اصلاحات پر متفق ہوگئے ہیں۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں۔ ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف بھی آئی ایم ایف طے کرے گا جو موجودہ سال کے 4.39 کھرب کے مقابلے میں 4.7 کھرب روپے ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج کی تفصیلات کبھی عوام کے سامنے نہیں لائی گئیں۔ اب بھی انہیں تیل‘ بجلی و گیس کے نرخوں میں ردوبدل‘ ٹیکس نیٹ میں توسیع‘ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں مزید کمی سے ہمارے لئے آئی ایم ایف کی خیرخواہی کا علم ہوگا۔ 21 کروڑ آبادی والے ملک میں صرف 16 لاکھ افراد ٹیکس دے رہے ہیں۔
بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 7 فیصد تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں جی ڈی پی کی شرح نمو 7.1 فیصد جبکہ ہمارے ہاں گزشتہ سال کے مقابلے میں 5.8 فیصد سے کم ہو کر 3.7 فیصد ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام، شرح سود، ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹیوں میں اضافے کے باعث صنعتی شعبے میں تنزلی ہوئی ہے۔
بدعنوانی کیخلاف وزیراعظم کا عزم ہر آنے والے دن کے ساتھ پختہ ہوتا جا رہا ہے۔ شفاف، جاندار اور مؤثر احتساب کا فقدان ہمارے اکثر مسائل کا بنیادی سبب رہا ہے۔ بدعنوانی کیخلاف پہلا قانون 1949ء میں بنایا گیاتھا۔ اس کے بعد 1969ء میں پھربھٹو دور میں اراکین اسمبلی کی نا اہلی کا قانون سامنے آیا۔ 1977ء میںجنرل ضیاء نے کوڑوںکے ساتھ احتساب اور بدعنوانی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے نیب کی بنیادرکھی برین ڈرین تو ہونا تھا پھر دولت بھی سوئس بنکوں میں رکھی جانے لگی آف شور کمپنیاں اور بیرون ملک جائیدادیں خریدی جانے لگیں منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک اثاثے بنائے گئے جس کی منی ٹریل پر پردہ ڈالا گیا آئیں بائیں شائیں کے سوا کچھ سامنے نہ آیا۔ جائیدادیں جس کے پاس تھیں اسی کے قبضے میں رہیں۔ منی لانڈرنگ آف شور کمپنیوں سوئس اکائونٹس اور جعلی بنک اکائونٹس کے شور نے کانوں کے پردوں پر اثر ڈالا، پیشیاں ریمانڈ طبی معائنے ضمانتیں اور رہائیاں نا اہلیاں اور کچھ بھی نہیں۔ سیاسی قوت کا اصل مرکز پارلیمان ہے پھر حکومت کے خلاف غیرسیاسی قوتوں پر انحصار کا الزام کس کے لئے؟ کیا مفاہمت کے سارے دروازے بند ہیں؟ این آر او اورمفاہمت میں فرق واضح ہونا ضروری ہے۔
آزادی صحافت اور آزادی اظہار کامفہوم غیر واضح کیوں ہے؟ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ناگزیر کیونکر ہے؟ ہر حکومت صحافت کو اتنی ہی آزادی دیتی رہی ہے جتنی وہ ایفورڈ کر سکتی ہے۔
پبلک اکائونٹس کمیٹی تنازعات کا شکار کیوں؟ اتنی اہم کمیٹی کو اب بھی ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنا ختم نہ ہوا تو حالات شاید کبھی نہ سدھر سکیں۔ پیپلزپارٹی نے دھمکی دی ہے کہ شہبازشریف کو پی اے سی سے ہٹایا تو پارلیمنٹ نہیںچلنے دیں گے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ چیئرمین پی اے سی اخلاقی طور پر یہ عہدہ نہ لیتے اور صاف کہہ دیتے کہ جب تک وہ نیب سے اپنے آپ کو کلیئر نہیں کروا لیتے تب تک وہ کسی قسم کا عہدہ نہیں لیں گے۔ علیم خان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسی مثالیں قائم نہیں ہوسکیں۔ ریلوے کے بڑے بڑے حادثات کے بعد کسی وزیر ریلوے نے کبھی استعفیٰ نہیں دیا۔ پی اے سی کے 29 ارکان میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کی تعداد 16 ہے 12 ارکان کا تعلق تحریک انصاف سے جبکہ اپوزیشن ارکان کی تعداد 13 ہے۔ خورشید شاہ کی للکار ہے ہمت ہے تو شہباز کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر دکھائیں حکومت انہیں پی اے سی کی سربراہی سے ہٹائے گی تو واقعی مشکل میں آ جائے گی، شہبازشریف کو ہٹانا بہت مشکل ہو گا۔ پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ معاشی حالات کریں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024