تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
مکرمی! جناب ثاقب صاحب سابق چیف جسٹس کے ریٹائر ہونے کے بعد عوام کی رائے مختلف ہے کچھ لوگ ان پرتنقید کے نشتر برسا رہے ہیں کہ وہ عدلیہ کے علاوہ دیگر کاموں میں سوموٹو کی صورت میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے اس بارے میری عرض ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے معاملے میں بھی کچھ دخل اندازی کسی حد تک کی لیکن انہوں نے زیادہ ترمظلوم اور غریب عوام کی حمایت میں ڈیم بنانے میں بہت جدوجہد کی یہ ایک وطن عزیز کی محبت ہی تھی اور ان کے جانے کے بعد تو ڈیم کا کام بھی سست پڑ گیا ہے۔ قبضہ گروپ لوگوں سے قبضے چھوڑنے کوئی چھوٹی بات نہ تھی بڑے لوگوں کو گرفتار کرانا اسلام آباد میں گھریلو ملازمہ پر ایڈیشل سیشن جج کی اہلیہ کے ظلم کی سزا دلانا کوئی معمولی کام نہ ہیں۔ سابق چیف جسٹس چودھری افتخار کو میں نے ان کی دوران سروس وزیرآباد ڈبل شاہ متاثرین کے بارے چٹھی لکھی اور انہوں نے سوموٹو ایکشن لیا اور نیب والوں کو حکم دیا کہ متاثرین سوموٹو ایکشن لیا اور نیب والوں کو حکم دیا کہ متاثرین کو رقم دی جائے جس پر مختلف لوگوں کو وزیرآباد گھر آ کر رقم دی گئی کیا میرے جیسا آدمی سپریم کورٹ دعوے کر سکتا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ کام حکومت کے کرنے کے ہیں۔ لیکن اگرحکومت نہ کرے تو پھر کسی تو کچھ کرنا چاہئے۔ مجھے امید تھی کہ اگر ثاقب نثار صاحب مزید کچھ عرصہ سیٹ پر رہتے تو بھاشا ڈیم ہی نہیں کالا باغ ڈیم بھی بن جاتا یہ کام اب تو سیاستدانوں کے رحم و کرم پر ہی رہ گیا ہے۔ (محمد یوسف جنجوعہ وزیرآباد)