سرحدوں پر بہت تنائو ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو ’’چنائو‘‘ ہے کیا
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی الیکشن جیتنے کیلئے بھارتی عوام کو پاکستان مخالف جنون میں مبتلا کرنے کی حکمت عملی کو خود ایک بھارتی شاعرنے متذکرہ بالا شعر میں پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ اگر پلوامہ کے واقعہ کو اس حکمت عملی کی روشنی میںخود بھارتی حکومت کا ڈرامہ سمجھا جا رہا ہے تو یہ باعث تعجب نہیں ہے۔ مودی نے پاکستان اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکا کر ہندو ووٹوں سے گجرات کے صوبائی انتخابات جیتے تھے۔ پھر ملکی سطح کے انتخابات جیتنے کیلئے بھی یہی حکمت عملی اختیار کی گئی جو بلاشبہ کامیاب رہی۔ اس حکمت عملی نے مودی یا انتہاپسند بی جے پی کو اقتدار کی مسند تک تو ضرور پہنچا دیا مگر اب Tempo کو برقرار رکھنا اس کی سیاسی مجبوری بن گئی ہے۔ لہٰذا اب انتہاپسندی کے بانس پر چڑھے رہنا ہی مودی اور اس کی جماعت کا سیاسی مقدر بن چکا ہے۔ ایک اور بات جس سے پلوامہ واقعے کے ڈرامہ ہونے کا تاثر ملتا ہے‘ وہ یہ کہ صدر کلنٹن کے دورہ پاکستان کے موقع پر بھارت کے علاقے چھتیس سنگھ پورہ میں مجاہدین کے حلیہ میں بھارتی فوجیوں پر فائرنگ کرائی گئی۔ 2000ء میں ہونے والے اس واقعے میں 30 سکھ فوجی مارے گئے تھے۔ دوسرے دن چار کشمیریوں کو مار کر لاشیںسامنے رکھ دی گئیں تو فوجیوں پر فائرنگ کرنے والے ’’دہشت گرد‘‘ یہ تھے مگر کشمیری عوام نے یہ ماننے سے انکار کر دیا۔ شدید مظاہرے ہوئے۔ حکومت کو ڈی این اے کرانا پڑا اور مزید تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ حملہ آور مجاہدین کے حلیہ میں خود بھارتی فوجی تھے جن کا سکھوں کو رام کرنے کیلئے کورٹ مارشل کا ڈرامہ بھی رچایا گیا۔ اس لئے اگر بعض اذہان میں یہ شک کلبلایا ہے کہ پاکستان میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی آمد کے موقع پر یہ ڈرامہ دہرایا گیا ہے تو غیرفطری نہیںہے۔ پلوامہ اور چھتیس سنگھ پورہ کے واقعات سے حیرت انگیز مماثلت ہے کہ پلوامہ میں بھی جس فوجی بس پر حملہ ہوا۔ اس میں بھی اکثریت سکھ فوجیوں کی تھی۔ کیا یہ کشمیریوں اور سکھوں کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی سازش ہے۔ پھر مزید عجیب بات یہ ہے کہ کشمیریوں پر حملے شروع کر دیئے گئے مگر تادم تحریر اس کانوائے کے سپیشل پروٹیکشن گروپ کے کمانڈر سے نہیں پوچھا گیا۔ ایک کشمیری نوجوان 300 کلوگرام دھماکہ خیز مواد لیکر فوجی کانوائے کے نزدیک کیسے پہنچ گیا جبکہ راستے میں جگہ جگہ چیک پوسٹیں بھی تھیں۔ وزیراعظم عمران خان نے مختصر ترین لیکن جامہ خطاب میں بہت نرم الفاظ میں بھارتی وزیراعظم کو بہت گرم پیغام پہنچا دیا ہے۔ کسی پاکستانی کے ملوث ہونے کا ثبوت پیش کرو‘ اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ واقعہ کی غیرجانبدارانہ تحقیقات میں تعاون کریںگے۔ پاکستان کے خلاف کوئی حماقت کی تو جواب کا سوچیں گے نہیں بلکہ جواب دیں گے۔ اس سے جنگی جنون میں مبتلا مودی اور اس کے انتہاپسند ساتھیوں کو یہ بات سمجھ آجانی چاہئے کہ بے شک جنگ وہ شروع کریں گے‘ لیکن اسے انجام تک پاکستان کی فوج اور عوام پہنچائیں گے۔
صورتحال کا دوسرا رخ بھی توجہ طلب ہے۔ بھارتی فوج جس وحشیانہ انداز سے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ تو رہی ہے‘ ہر روز کسی نہ کسی نوجوان کی شہادت‘ گرفتاری‘ تشدد‘ عزت ماب خواتین کی بے حرمتی‘ گھروں کو نذرآتش‘ کرنے اور بلا جواز تضحیک و توہین کا نشانہ بنانے کی خبروں سے اگر ہر نوجوان اس احساس میں مبتلا ہو کر کہ کل یہ سب اس کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے‘ اس کے دل و دماغ میں شدید نفرت آمیز ردعمل کا الائو دھکا دے تو تعجب نہ ہونا چاہئے۔ عادل ڈار اس اذیتناک صورتحال کا شکار ہوا جب سکول سے آتے ہوئے بھارتی فوجیوں نے اسے راہ چلتے پکڑ کر سڑک پر مرغا بنایا اور ناک رگڑوائی۔ایسے واقعات اگر اس سوچ کو جنم دیں کہ جب مرنا ہی ہے تو پھر ’’مار کر مرو‘‘ بھارت میں کچھ تو انصاف پسند لوگ ہوں۔ ان سے سوال ہے کہ کشمیریوں کی پرامن جدوجہد احتجاجی مظاہروں سے پتھرائو میں تبدیل ہو جائے اور پھر بات خودکش حملے تک جا پہنچے تو بھارتی حکومت اور بالخصوص بھارتی فوج کس حد تک ذمہ دار ہے۔ ابھی پلوامہ واقع پر اشتعال میں لتھڑی بازشت فضا میں تھی کہ ایک دوسرے واقعہ میں ایک میجر سمیت چار فوجی مزید مارے گئے۔ مجاہدین سے 3 گھنٹے مقابلے میں ایک بریگیڈیئر اور ایک کرنل زخمی ہوا۔ بھارتی فوج نے کشمیری نوجوانوں کو خودکش حملے کی جو راہ سمجھائی ہے۔ میرا اندازہ ہے وہ اپنے ظالمانہ طرزعمل کے باعث اپنے خلاف اس ’’ہتھیار‘‘ کے استعمال کی راہ مزید ہموار کرے گی اور تعجب نہ ہونا چاہئے۔ ہندو انتہاپسندی کے باعث پورا بھارت اس کی لپیٹ میں آجائے۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے۔ مودی‘ بی جے پی اور دیگر انتہاپسند تنظیموں کی صورت میں مجھے بھارت ٹوٹنے کے اسباب‘ آثار نظر آرہے ہیں کیونکہ آسام اور تری پورہ سمیت کئی علاقوں میں تحریکیں زور پکڑ گئی ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024