انسان کا معاشرتی جانور ہونے کی حیثیت ہے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھنا لازمی امر ہے اسی طرح جب کوئی بھی ملک معرض وجود میں آتاہے تو اس کا تعلق بین الاقوامی طور پر تمام ممالک سے جڑجاتاہے، جن ممالک کی تہذیب وتمدن،ثقافت، روایات اور مذہب ایک ہوں وہ عالمی اداروںمیں ایک مٹھ ہوجاتے ہیں۔ پاکستان اپنی حیثیت میںایک بے مثال اور لازوال اسلامی ملک ہے اس کی تاریخ جدوجہد، جنگوں، فتوحات اور دیگر ان گنت کارناموں سے بھری پڑی ہیں، اسلامی ملکوں میں پاکستان کا اخوت وبھائی چارے کا پیغام ہر مشکل میں ساتھ کھڑے ہونے کا اعلیٰ ترین کردار سب کے سامنے ہے۔ تعلقات بنانے سے زیادہ مشکل ان کو نبھانا ہوتاہے مگر وطن عزیز نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ہم اپنے تمام مسلمان بھائیوں اور ممالک کی پکار پر لبیک کہیں، مسلمانوں کی بین الاقوامی برادری ہرلحاظ سے ایک ہی ایجنڈے پر کام کرتی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کا دفاع کرنا ہے اسی سلسلے کی ایک کڑی ایران کے ساتھ جڑتی ہے یہ بڑی خوش آئئین بات ہے کہ روابط مضبوط کرنے کیلئے ایران کے وفد ہمارے ہاں آتے ہیں۔فروری میںایران کے ممبر رہبرکونسل، ممبر کلچرل ونگ، سابق چانسلر المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی، سربراہ دینی مدارس ، ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز پروفیسرڈاکٹر علی رضا اعرافی پاکستان تشریف لائے۔ قلم دوست کے پلیٹ فارم سے چیئرمین ایثار رانا اور کورکمیٹی کے ممبران نے ان کے اعزاز میں آواری میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ڈیڑھ سو سے زائد صحافیوں اور مختلف الیکٹرانک میڈیا کے معززین نے شرکت کی۔ محمد عباس وزیری نے تلاوت فرمائی اور اذان ایثار نے ہدیہ نعت پیش کیا۔پروفیسر ڈاکٹر علی رضا اعرافی فارسی میں گفتگو کررہے تھے او رمترجم ان کی گفتگو ناظرین تک پہنچا رہے تھے، اعرافی صاحب نے کہاکہ ایران اور پاکستان کے مثالی تعلقات صدیوں پہ محیط ہیں، ہمارے درمیان تہذیبی، مذہبی رشتے کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کا مضبوط رشتہ بھی موجود ہے اسی رشتے نے ان دونوں ممالک کی تقدیر کو ایک دوسرے سے جوڑ رکھاہے اور دعا ہے کہ یہ رشتہ اور تعلق مستقبل میں اور مضبوط ہو۔ادبی ثقافتی اور تعلیمی سیمینار دونوں ملکوں کی عوام کو اور قریب لائیں گے، ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ عصرحاضر میں اسلام کی کیا تصویر پیش کی جارہی ہے۔بے شمار تفاسیر اور تحریریں منظر عام پہ آچکی ہیں جن میں مختلف نظریات موجود ہیں۔ زیادہ تر جنوبی تفرقات کو ایک طرف رکھ دیاگیا ہے عبادات پر زور دے کر کہا ہے کہ یہ خالصتاً انسان اور خدا کا معاملہ ہے۔ ہمیں مذہبی قدروں کو عملاًمضبوط کرنا، بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اس کو بیان کرنا اور نئی نسل کو اسلامی تعلیمات کے مطابق محبت اور ایثار کو اپنا شعار بنانے کی ترغیب دینا چاہیے۔ اسلام کی اصل صورت میں شدت پسندی کا کوئی حوالہ موجود نہیں، اسلام تو میانہ روی کا درس دیتاہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال جو فارسی میں بھی شاعری کرتے تھے ان کا رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔
؎دین ہو،فلسفہ ہو، فقرہو،سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنیاد پر تعمیر
اقبال کے شعر کے مطابق مسلمانوں کے پختہ عقائد ہی بنیاد کی مضبوطی کا باعث ہیں، ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح ہوتی ہے، تعمیر وترقی کے ساتھ ساتھ ادب اور تعلیمی میدان میں تبادلہ خیال ، ملاقاتیں، سیمینار اور ثقافتی میلوں کا اجراء بہت اہمیت کا حامل ہے جس طرح سے ایران اور پاکستان کے تعلقات پچھلے عرصے میں مشکوک تاثر دیتے رہے اس کو مٹانے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ ملاقاتوں کایہ سلسلہ اس تاثر کو یکسر ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا، ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ خارجہ پالیسی پر نظرثانی اور انتہا پسندی کی حکمت عملی ختم کرنا بہت ضروری ہے، عالمی برادری تو ویسے بھی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم اوربربریت کی دردناک کارروائیوں پہ اندھی،بہری،گونگی نظرآتی ہے۔ کانوں کو سنائی دینے والی آہ فغاں آنکھ کونظر آنے والے سفاکانہ کردار پہ اپنی زبان کو آواز دینامسلم برادری کیلئے اب ناگزیر ہوچکاہے۔حضرت محمد مصطفیﷺ کی سنت ہماری تاریخی میراث ہے اور وہ اقوام عالم کیلئے راستی کا پیغام ہے، تعلیمات قرآنی عصرِحاضر کے تمام تقاضوں کو یکسر پورا کرتاہے۔ہمیں اپنی عقل کو اسلامی شناخت، سیاسی رہنمائی اور معاشرتی وعالمی تعلقات کیلئے استعمال کرنے کا طریقہ سیکھنا ہے، تفرقہ بازی کی نفی پہلا کامیاب قدم ہے جسے مسلم برادری کو اٹھانا لازمی ہے، یورپ زدہ اسلام کو مفکرین، اساتذہ اور اسلامی تاریخ کے ذریعے اپنی نسلوں کے کردار سے نکالنا ہے، یہ وقت ہے قارئین ایسی کردار سازی کا جس کیلئے اقبال نے فرمایا۔
؎کبھی اے نوجوان مسلم تَدبُر بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
ہم نے اسی تدبُر کو اجاگر کرنا ہے۔
شدت پسندی اسلام میں تفرقہ بازی کی بنیاد بنتی ہے اسی لیے تومیانہ روی سے مزین اور مذہب عالمی برادری کو فکر کی وہ راہ اور ملنساری ومحبت کا وہ عمل سکھاتاہے جس میں سب مسلمان ایک ہیں۔مملکت اسلامیہ کیلئے اقبال کایہ پیغام بہت اہمیت کا حامل ہے۔
بُتانِ رنگ وخُوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تو رانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
آج عالم بشریت کی اجتماعی زندگی تدریجی اور اساسی انقلاب کی خواہاں ہے۔ اسی عالمگیر پیغام کو نہ صرف ایران اور پاکستان کو اجاگر کرنا ہے بلکہ مسلم عالمی برادری کے ہر فرد کے دلوں میں بسانا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024