دشمنی کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ یہ فیصلہ کسی مؤرخ نے نہیں بلکہ برصغیر ایشیاء کے ان دو ملکوں نے ہی کرنا ہے جنہیں ہم پاکستان اور ہندوستان کے نام سے جانتے ہیں۔ اِن دونوں ملکوں کی تاریخ جتنی پُرانی ہے، ان کی دشمنی بھی اتنی ہی قدیم اور پرانی ہے جو سات دہائیوں پر محیط ہے۔ 14اگست 1947ء کو جب یہ دونوں ملک اپنا نیا وجود اور نام لیے دنیا کے نقشے پر ابھرے تو ان کے درمیان کچھ ایسے تنازعات باقی رہ گئے جو، اب بھی پاکستان اور بھارت میں کشیدگی، دہشت گری اور جنگی جنون کا باعث ہیں۔ جس سے دونوں ملکوں میں ترقی کا عمل بھی رُکتا ہے اور امن و سکون کی فضا بھی متاثر رہتی ہے۔آبی وسائل سمیت جموں و کشمیر کا تنازع گزشتہ 70سالوں سے یہاں موجود ہے۔ ہم اس متنازع مسئلے کو لے کر تین جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔ مگر مسئلے کا کوئی حتمی حل نہیں نکل سکا۔ باہمی مذاکرات کے بھی کئی دور دہلی اور اسلام آباد میں ہوئے مگر حل طلب مسائل وہیں کے وہیں رہے۔ کیا ہم مذاکرات میں سنجیدہ نہیں اور کیا ہم تنازعات کا حل ڈھونڈنا ہی نہیں چاہتے ؟ یہ وہ سوال ہیں جن پر گفتگو اور بحث ضروری ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ چاہا کہ دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات ہوں جن میں سنجیدگی کا عنصر غالب رہے مگر شاید بھارت کا اپنا رویہ کچھ ایسا ہے کہ مذاکرات کو، جو اگر کبھی ہوئے بھی ہیں، کامیاب بنانے میں ممدو و معاون ثابت نہیں ہوا۔ بھارت کی سوچ ہے کہ وہ خطے کا ایک بڑا ملک ہے وہ شاید اسی تصور کو لے کر ہٹ دھرمی کی طرف بڑھتا ہے جس سے پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی تمام تر سنجیدہ کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ پی ٹی آئی نے جب عنانِ اقتدار سنبھالا تو سابق وزرائے اعظم کی طرح عمران خان نے بھی وزارتِ عظمی کا منصب سنبھالتے ہی اپنے ایک بیان میں بھارت کو پیش کش کی کہ وہ اگر دوستی کی طرف ایک قدم بڑھائے گا تو پاکستان اُس کا مثبت جواب دے گا اور دو قدم آگے بڑھے گا۔اسلام آباد نے اسی تناظر میں مودی حکومت کو ایک خط بھی لکھا جس میں مذاکرات کی ایک بار پھر پیش کش کی مگر مودی حکومت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وجہ اس کی وہی ہٹ دھرمی تھی جو بھارت نے گزشتہ 70سالوں سے اختیار کی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سنجیدگی کے باوجود تنازعات کا کوئی حل نہیں نکل رہا۔ امن کا حصول مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ دو ملکوں کے مابین اگر کسی قسم کے تنازعات ہوں اور اُن کے لیے جنگیں ہونے لگیں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ دنیا تباہی سے بچ جائے۔
پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایٹمی ملک ہیں اور کسی بھی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ جنگ ہوئی تو وہ روایتی جنگ نہیں ہو گی۔ ایٹمی بن سکتی ہے اور بڑی تباہی لا سکتی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے اور بھارت کو ضرور سمجھنی چاہیے۔ کشمیر ایک بڑامسئلہ ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین سنگین تنازعہ کی صورت رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار داد بھی اس حوالے سے موجود ہے۔ جس میں جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے حق خود ارادیت کی بات کی گئی ہے۔ یعنی دنیا نے بھی اس قرار داد کے ذریعے تسلیم کیا ہے کہ کشمیریوں کو اُن کی رائے کے مطابق آزادی کا حق ملنا چاہیے۔
اس آزادی کے مشن کو لے کر کشمیری مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ اس تحریک آزادی کے تناظر میں اگر کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اُسے پاکستان سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ چند روز پہلے کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی آرمی کے کانوائے پر ایک خودکش حملہ ہوا جس میں 44بھارتی فوجی مارے گئے اور بیسیوں زخمی ہوئے لیکن بھارت نے کوئی تحقیق کئے بغیر اس واقعہ کا الزام پاکستان پر لگا دیا۔ بھارتی میڈیا نے کہا کہ پاکستان واقعہ میں ملوث ہے جبکہ پاکستان نے کہا کہ بھارت کے پاس اس حملے کے جو بھی شواہد ہیں وہ پاکستان کے ساتھ شیئر کرے۔ ہم مکمل تحقیقات کریں گے اور واقعہ کی تحقیقات میں بھارت کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا۔پلوامہ واقعہ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اب بھارت کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ بھارتی حکومت کو کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا پلوامہ حملے کو پاکستان سے جوڑنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ کشمیر میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے جو اندر سے ہی اٹھی ہے۔ بھارتی حکومت کو اس کا ادراک کرلینا چاہیے۔ کئی بھارتی دانشور، صحافی اور سیاستدان بھی یہ مؤقف اور نقطۂ نظر رکھتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر اتنی پھیل چکی ہے کہ اسے کچلنا اور دبانا اب کسی کے بس کی بات نہیں۔
اس تناظر میں اب بھارت کو غور کرنا چاہیے کہ اگر وہ خطے میں امن کا خواہش مندہے تو اُسے کشمیر جیسے دیرینہ مسئلہ منطقی بنیادوں پر حل کر لینا چاہیے۔ کشمیریوں نے اپنی آزادی کے لیے ہزاروں افراد کی قربانی دی ہے۔ اسی آزادی کے لیے وہ اب بھی خون بہا رہے ہیں۔ لہٰذا یہ بات اٹل ہے اور جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ کشمیریوں نے اپنے لہو سے آزادی کے جو چراغ جلائے ہیں وہ اب بجھ نہیں سکتے۔ کشمیر ایک دن ضرور آزاد ہو گا اور وہ دن اب دور نہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024