وزیراعظم پاکستان نے گزشتہ روز پلوامہ حملے کے بعد بھارتی حکومت مسلح افواج اور سیاست دانوں کی طرف سے پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات اور پاکستان کو جنگ کی دھمکیوں کا جس طرح منہ توڑ جواب دیا ہے اس سے پاکستانی قوم اور کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم متوقع الیکشن میں کامیابی کیلئے پلوامہ حملے کو کیش کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا انتہا پسند ہندو اور مسلح افواج بھی اس کام میں بی جے پی سرکار کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ دم پر کھڑا ہو کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں بھی پاکستانی وزیراعظم نے سنجیدگی اور متانت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ انہوں نے گزشتہ روز کی اپنی نشری تقریر میں نہایت اطمینان کے ساتھ ضیاء الحق مرحوم والی پالیسی اختیار کرتے ہوئے تناؤ کے اس ماحول میں بھی بھارت کو جس طرح منہ توڑ جواب دیا اس سے امید ہے بھارتی حکومت، فوج ، انتہا پسند سیاستدانوں اچھل اچھل کر سوشل میڈیا پر بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے اینکر پرسنوں اور عوام کو بھی ٹھنڈ پڑ گئی ہو گی۔ بھارت یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ ضیاء الحق کے دور سے لیکر اب موجودہ حکمران عمران خان کے دور تک کئی مرتبہ خواہش کے باوجود بھی وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکا، پاکستانی قوم فوج اور حکومت ہمہ وقت بھارت کی طرف سے کسی بھی احمقانہ حرکت کا جواب دینے کیلئے تیار ہیں، سچ کہیں تو ناصرف تیار ہیں بلکہ 1971ء کا بدلہ چکانے کے موڑ میں بھی رہتے ہیں۔ وزیراعظم نے نہایت خوبصورت سے عام فہم زبان میں بھارت کو سمجھا دیا ہے کہ بھارت نے اگر حملہ کیا تو ہم فوری جواب دینگے سوچیں گے نہیں اسی قسم کا جواب ضیاء الحق مرحوم نے راجیو گاندھی کو دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت حملے کا شوق پورا کر لے پھر لوگ ہٹلر اور چنگیز خان کو بھول جائیں گے ہمیں یاد رکھیں گے۔ اب عمران خان کے اس بیان نے کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات کو ترجمانی کا حق ادا کر دیا ہے۔ اس کے باوجود نریندر مودی سے کچھ بعید نہیں وہ الیکشن جیتنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ پاکستان ورکنگ باؤنڈری نہ سہی مگر وہ جس طرح مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کو جموں لداخ سے علیحدہ کر کے یک و تنہا کر چکا ہے وہاں کی کنٹرول لائن پر چھیڑ چھاڑ یا جنگی کیفیت پیدا کر سکتا ہے تاکہ بھارتی عوام کو جنگی جنون میں مبتلا کر کے انکے ہندو تواکا ووٹ حاصل کرسکے اس لئے لگتا ہے کہ کشمیر بارڈر پر یا پھر راجستھان بارڈر پر بھارت کوئی کارروائی کر سکتا ہے اس لئے اس نے راجستھان سے تمام پاکستانیوں کو نکلنے کا حکم بھی دے دیا ہے یہ اس کا دوسرا آپشن ہو سکتا ہے پہلا آپشن بہرحال کشمیر ہی ہو گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئیٹرس کو پاکستانی وزیر خارجہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے سبب کسی بھی ممکنہ تصادم کے حوالے سے خبردار کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے حسب معمول وہی جواب دیا ہے کہ اگر دونوں ممالک رضا مند ہو تو اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کا تصفیہ کرانے میں تیار ہو سکتا ہے کیا یہی فارمولا مشرقی تیمور اور سوڈان میں بھی اپنایا گیا تھا وہاں تو مسیحی اقلیت کی معمولی خانہ جنگی پر اقوام متحدہ نے ایکشن لیکر انہیں علیحدگی کا حق دلوایا اگر پاکستان اور بھارت میں جنگ ہوئی ہے تو کیا تب بھی اقوام متحدہ یہی پالیسی اپنائے گا کہ جب دونوں ممالک جنگ بندی پر رضا مند ہوں تو اقوام متحدہ جنگ بند کرائے گا۔ اقوام متحدہ کی یہی دوغلی پالیسیاں اس ادارے کی ناکامی کا سبب بن سکتی ہیں۔ اقوام متحدہ کو از خود جنگ سے قبل ہی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ایکشن لینا پڑیگا تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ عالمی طاقتوں کو بھی دنیاکے امن کو بچانے، عالم انسانیت کو تباہی سے روکنے کیلئے اقوام متحدہ کی سرکردگی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے ہیں۔ خطہ کشمیر ایٹمی آتش فشاں کا دھانہ بن گیا ہے وہ اگر پھٹ پڑا تو پھرجنوبی ایشیا میں ہی نہیں دنیا کے وسیع رقبے پر ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے جو تباہی آئیگی اس کا تصور بھی انسانی سوچ سے باہر ہے۔ اس ہولناک تباہی و بربادی سے بچنے کے لئے بہرصورت مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف پیش قدمی کرنا ہوگی۔21 جنوری 2019ء کو سپرمون میں چاند گرہن جسے چاند کا خونی چہرہ بھی کہتے ہیں لگ چکا ہے ۔ گزشتہ روز 19 مارچ کو تین ماہ کے عرصہ میں دوسری مرتبہ سپرمون کا نظارہ بھی کرہ ارض پر رہنے والوں نے کیا۔ ماہرین فلکیات کے مطابق چاند گرہن اور سپرمون کا سرخ خون آلود رنگ جہاں دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتا ہے وہاں زمین پر رہنے والوں کے جذبات خیالات اور احساسات پر بھی گہرے اثرات لاتا ہے جس طرح چودھویں یعنی مہ کامل کی راتوں میں سمندر بپھر جاتے ہیں جو اربھاٹا یعنی مدوجز کا طوفان اٹھتا ہے اسی طرح انسانوں میں بھی ہیجان اور منفی خیالات کا غلبہ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس تناؤ میں آ کر کوئی بھی غلط فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ہندو ماہرین نجوم کے نزدیک یہ وقت کسی بھی تخریبی کام کیلئے شبھ یعنی موزوں تصور ہوتا ہے۔
سپرمون کے یا چاند گرہن کے اثرات کم و بیش دو ماہ تک رہتے ہیں یا اگر طالع میں سیارے نجس حالت میں ہوں تو یہ عرصہ طویل ہو سکتا ہے اس لئے بھارت کی طرف سے کسی بھی غلط حرکت کی توقع کی جا سکتی ہے اس کیلئے ہمیں بہرصورت نہایت سکون کے ساتھ تیار رہنا چاہیے۔ ہمارا سکون ہی ہماری طاقت ہے اس میں ہماری کامیابی ہے۔ بھارتی عوام اور حکمران حیران تو ہیں کہ ان کی دھمکیوں کے باوجود پاکستانی کتنے اطمینان سے سپر لیگ میچوں میں مست ہیں انہیں کوئی ڈر یا خوف نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی جانتے ہیں ان کی مسلح افواج اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے چوکس اور چوکنا ہے بھارتی ہماری چھوڑیں اپنی خیر منائیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024