بدھ ‘ 4؍ جمادی الثانی 1439 ھ ‘ 21؍ فروری 2018ء
عمران خان کا پانامہ کیس کے فیصلے پر اعتراض ’’کیس کرپشن کاتھا سزا اقامہ پر ملی‘‘
اب تو خان صاحب بھی پانامہ کیس کے فیصلے پر وہی زبان بولنے لگے ہیں جو میاں نوازشریف بول رہے ہیں۔ یہی وہ رونا ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ میاں صاحب تو چیخ چیخ کر تھک گئے ہیں کہ ان پر کرپشن کا ایک دھیلا ثابت نہیں ہوا تو اقامہ کو لے کر ان کی نااہلی کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ اب عمران خان نے بھی گزشتہ روز یہی بیانیہ دہرایا ہے جس سے ان کی اُلجھنیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ اب اس اُلجھن کو کوئی بھی سنوار نہیں سکتا۔ عمران خان کے بیانیہ پر اب میاں نوازشریف اور مسلم لیگ (ن ) والے تو شادیانے بجا رہے ہوں گے کہ دیکھ لیا ہم درست کہہ رہے تھے کہ …؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
اس لئے اب تو مخالفین ، بھی ہماری تائید کر رہے ہیں وہ بھی ایسے مخالفین جنہوں نے یہ کیس شروع کیا تھا۔ سو اب ’’بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے‘‘ عمران خان کے اس بیان پر اس قسم کے اعتراض پر تلملاتے سب سے زیادہ دکھ شیخ رشید کو ہوا ہوگا کیونکہ وہ تو پانامہ کیس میں میاں نوازشریف کو اڈیالہ جیل میں بند ہوتا دیکھ رہے تھے مگر یہاں اب پانامہ کیس اقامہ کیس میں بدلتا جا رہا ہے۔ کیا اپنے کیا پرائے سب اقامہ اقامہ کا شور مچا رہے ہیں جس سے شیخ جی اب رات بھر کروٹیں بدلتے رہتے ہوں گے…
٭……٭……٭
سول ہسپتال میرپور خاص میں نرسوں نے چھیڑ خانی کرنے والے ڈاکٹر کی درگت بنا دی
اس موصوف ڈاکٹر کو جس طرح ہسپتال میں نرسوں نے مل کر نرس کے ساتھ مبینہ غلط حرکات پر رگیدا اس کے بعد تو چاہئے تھا کہ وہ اپنا منہ چھپاتا پھرتا۔ مگر حضرت اُلٹا اپنا سوجا ہوا منہ لے کر پہلے تو میڈیا کے سامنے مظلوم بننے کی کوشش کرتے رہے اس کے بعد رات کو چوٹوں پر ٹکور کرنے کے بعد صبح چند ڈاکٹروں کو ساتھ لے کر پریس کلب کے باہر مظاہرہ کرنے جا پہنچے تاکہ خود کو بیگناہ زخمی ثابت کر سکے۔ واقعہ کی اطلاع ملنے پر محکمہ صحت سندھ کے وزیر نے انکوائری کرائی تو پتہ چلا چند سال پہلے یہی ڈاکٹر رمیش صاحب کراچی میں بھی ایک مریضہ سے نازیبا حرکات کی شکایت پر برطرف ہوئے تھے۔ مگر چند ماہ بعد ہی سرکاری ہسپتال میں پر اسرار طریقے سے واپس ڈیوٹی پر آ گئے۔ جس پر سندھ کے وزیر صحت مارے غصے اور حیرانی کے اب یہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ اسے دوبارہ بحال کس نے کیا۔ یہ کہاں سے ڈیوٹی پر آ گیا۔ اب شاید انہی کرتوتوں کی وجہ سے بعدازاں اسے تبادلہ کر کے میرپور خاص بھیجا گیا تھا مگر یہ یہاں بھی اپنی حرکتوں باز نہیں آئے اور نرس سے چھیڑ خانی کی جس کا جواب اسے ہسپتال کی باقی نرسوں سے مل جل کر اچھی خاصی چھترول کی صورت میں مل گیا۔ معاملہ بھی میڈیا اور پولیس تک آ گیا اُمید ہے ڈاکٹر صاحب کو اب کافی آرام مل رہا ہو گا۔
٭……٭……٭
رائو انوار کو بہادر بچہ کہنے پر سندھ اور خیر پی کے اسمبلی میں مذمتی قراردادیں پیش
زرداری صاحب ویسے تو پہلے تولنے اور پھر بولنے کے قائل لگتے ہیں تو پھر یہ دل کی بات اچانک کیسے ان کی زبان پر آ گئی اور صرف آئی ہی نہیں پھسل کر دوسروں کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ اب وہ لاکھ وضاحتیں کریں یا ان کے پیروکار اسکی تاویلیں کرتے پھریں جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ رائو انوار ان کے چہیتے ہوں گے۔ مرحوم مرتضیٰ بھٹو کی موت سے لے کر آج تک ان کے اس چہیتے نے جو کارنامے سرانجام دئیے ہیں۔ و ہ آخر حکومت سندھ یا اس وقت کے حکمرانوں کے حکم پر ہی انجام دئیے ہونگے۔ اب ان کے حساب کتاب کا وقت قریب آ رہا ہے تو رائو صاحب یوں غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ سب ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پریشان ہو رہے ہیں جبکہ زرداری صاحب ان کے ذکر پر معنی خیز مسکراہٹ بکھیرتے نظر آتے ہیں ۔ اب تو سندھ ا ور خیبر پی کے اسمبلی میں زرداری صاحب کی طرف سے رائو انوار کو بہادر بچہ کہنے کیخلاف مذمتی قراردادیں پیش ہوئی ہیں۔ فاروق ستار تو بہت گرم ہیں انہوں نے آصف زرداری کیخلاف جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کر دیا ہے۔ کیونکہ ان کا نزدیک یہ شخص ایم کیو ایم کے درجنوں کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔ اگر ایسا ہے تو فاروق ستار نے پہلے کیوں آواز بلند نہیں کی عدالتوں کا رخ کیوں نہیں کیا۔ یہ تو نقیب اللہ کے قتل پر پٹھانوں کی طرف سے شدید احتجاج کے بعد لوگوں میں آواز بلند کرنے کا حوصلہ ہوا ہے تو اب فاروق ستار بھی اس میں شامل ہو کر اپنی پارٹی والوں کو متاثر کرنا چا رہے ہیں۔
٭……٭……٭
66 سال کا دولہا ہو اور طلاق یافتہ دلہن تو خلق خدا سے آواز آتی ہے ’’در فٹے منہ لکھ دی لعنت‘‘ ۔ رانا ثناء اللہ
یہ تو رانا جی نے بہت زیادتی والی بات کہی۔ انہیں ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا۔ ہماری مشرقی روایات ہماری تہذیب میں نئی شادی کرنے والے کو مبارکباد دی جاتی ہے۔ ان کی برے القاب یا گالیوں سے تواضح نہیں کی جاتی کیونکہ یہ اخلاقیات کیخلاف ہے۔ اب بے شک 66 سالہ بابا ہو یا 70 سالہ بابا سر پر سہرا سجانے‘ ہاتھوں میں مہندی رچانے سے منڈا تو بن نہیں سکتا۔ مگر ایسی بھی کیا بے مروتی کہ بات فٹے منہ تک جا پہنچے۔ ہمارے ہاں ایسے بے شمار بزرگ قسم کے بابے موجود ہیں جنہوں نے اپنی تنہائی مٹانے‘ اپنے گھر کی رونق واپس لانے کے لئے آخری عمر میں شادیاں کیں۔ اب اگر کوئی مارے حسد کے اس پر …؎
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
والا چچا غالب کا شعر پڑھنا شروع کر دے تو الگ بات ہے۔ خود رانا ثنا بھی تو مونچھوں پر اور سر کے بالوں پر خضاب مل کر نوجوان بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں تو کیا عمران خان کو حق نہیں کہ وہ بھی سر کے بالوں کو کالا کرکے خود کو جوان بنا کر پیش کریں اور شادی بیاہ کرتے پھریں۔ جب پنکی پیرنی کو اعتراض نہیں جس نے خان صاحب کی محبت میں طلاق تک کا انتہائی قدم برداشت کر لیا تو اب رانا جی کو کیا پڑی کے وہ ایسے ریمارکس دیں اور پھر ساتھ ہی ھنی مون پر جانے کے لئے ٹکٹوں کی پیشکش کرکے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ وہ اگر یہ پیشکش جملے بازی سے پہلے کرتے تو خان صاحب قبول کر لیتے۔ اب تو و ہ یہ مفت پیشکش بھی قبول نہیں کرینگے۔
٭……٭……٭