دنیا بھر میں جہاں بھی جمہوری نظام رائج ہے وہاں پر ووٹ کی حرمت اور تقدس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ریاست کی تمام داخلی اور خارجی پالیسیوں کا مرکز و محور ووٹ دینے والا شہری ہوتا ہے جس کی فلاح و بہبود کو ہر حال میں ترجیح دی جاتی ہے۔ جمہوری ملکوں میں ووٹروں سے ووٹ لیکر ان کو نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ عوام کا ووٹ لیکر منتخب ہونیوالے حکمران عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کے وقار کا خیال رکھا جاتا ہے اور عوام کی اجتماعی آواز آئین کی بالادستی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ محسن انسانیت حضرت محمدؐ نے بیعت کرنے (ووٹ دینے) والوں کی حرمت اور تقدس کی بے شمار مثالیں پیش کیں۔ آپؐ اپنے صحابہ (ووٹروں) کے ہمراہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو ان کو بے یار و مددگار نہ چھوڑا اور مہاجرین و انصار کا مشترکہ اجلاس بلا کر مواخات کے اُصول پر مہاجرین کے قیام و طعام کا انتظام کیا یہ ووٹ کی حرمت کا شاندار عملی مظاہرہ تھا۔ حضرت عمرؓ بیعت کے ذریعے ووٹ لینے کے بعد اپنے ووٹروں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھتے وہ رات کو مدینہ کی گلیوں کا دورہ کرتے اگر کسی ووٹر کے گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو بیت المال سے گندم کی بوری اپنی کمر پر اُٹھا کر ووٹر کے گھر پر پہنچاتے۔ حضرت عمرؓ کی نظر ہر ووٹر پر ہوتی انہوں نے اپنے ایک ووٹر کو دو ہفتے مسجد سے غائب پاکر اپنے معاون کو اسکے گھر بھیجا جب حضرت عمرؓ کو اطلاع ملی کہ ان کا ووٹر آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھا ہے تو آپ نے اسکی معاونت کیلئے بیت المال سے ایک معاون مقرر کردیا۔ ووٹ کی حرمت کو عملی طور پر ثابت کرنا مشکل اور اسے اپنے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرنا آسان ہوتا ہے۔ پاکستان میں جمہوری نظام کی بنیاد ہی ظلم، جبر، استحصال اور لوٹ مار پر رکھی گئی ہے۔ صرف ووٹ (پرچی) کی قدر و قیمت ہے جبکہ ووٹ دینے والے ووٹر کو لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جس جمہوریت میں انتخابی مقابلہ ووٹوں کی بجائے نوٹوں کا ہو بلکہ نوٹ کی طاقت سے ووٹ کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہو اس میں ووٹ کی حرمت کے دعوے مذاق کے سوا کچھ نہیں ہیں۔کہا جاتا ہے‘ میاں نواز شریف نے نااہلی کے بعد احتساب سے بچنے کیلئے ووٹ کی حرمت کا ’’پرچار‘‘ شروع کردیا ہے۔ ان کا بیانیہ یہ ہے جس لیڈر کو عوام ووٹ دیکر وزیراعظم منتخب کرلیں اسے آئین، پارلیمنٹ اور ریاستی قوانین پر بالادست ہونا چاہیئے اور عدلیہ کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ وزیراعظم کو انصاف کے کٹہرے میں لاسکے۔
عوام اگر باشعور ہوتے تو کرپٹ سیاستدانوں کے فریب میں نہ آتے اور جان لیتے کہ سیاستدانوں کو صرف ووٹ سے غرض ہے ووٹ دینے والوں کی انکی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پاکستان میں ووٹ دینے والے عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھا جاتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اگر بھیڑ بکریوں کو گمراہ کرکے ایک بار پھر اقتدار میں آگئی تو عمومی تاثر ہے کہ میاں نواز شریف آئین میں ترمیم کرکے صدر پاکستان کی طرح وزیراعظم کیلئے بھی آئینی استثنیٰ حاصل کرلیں گے۔ فوج اور عدلیہ کو پولیس جیسے ادارے بنا دیا جائیگا اور پھر اسکے بعد بقول آصف زرداری میاں صاحب ’’گریٹر پنجاب‘‘ کا خواب پورا کرنے میں کامیاب ہو جائینگے۔ عوام اگر اجتماعی خودکشی پر آمادہ ہوچکے ہیں تو پھر ان کو کون بچاسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف ان لوگوں کی حالت تبدیل کرتا ہے جن کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال ہو۔ پاکستانی سیاست اور صحافت اس حد تک زوال پذیر ہوچکی ہے کہ آج بیس کروڑ عوام کی ایٹمی ریاست کا واحد مسئلہ شریف خاندان کو احتساب سے بچانا ہے۔ ووٹروں کی عزت کرنیوالا سیاسی لیڈر وسیع و عریض محلات میں نہیں بلکہ عوام کے درمیان رہتا ہے۔ پاکستان کو نفسانفسی ، افرا تفری اور اندرونی عدم استحکام سے بچانا مقتدر اداروں کا آئینی فریضہ ہے۔ پاکستان کے سیاستدان اقتدار اور مفادات کی سیاست میں اس قدر مگن ہیں کہ ان کو قومی سلامتی کو لاحق چیلنجوں کا ادراک ہی نہیں ہے۔ برطانیہ کے ممتاز سکیورٹی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ (آر یو ایس آئی) نے تازہ رپورٹ میں پاک فوج کی نئی حکمت عملی ’’باجوہ ڈاکٹرائین‘‘ کو پر اعتماد، سنجیدہ اور کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج جنرل پرویز مشرف سے آج بہت بہتر اور مؤثر انداز میں امریکہ کے دبائو کا مقابلہ کر رہی ہے اور اپنا نیا عسکری بیانیہ پُر اعتماد طور پر پیش کررہی ہے۔
رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ امریکہ صدر بش کی طرح پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے مگر وہ دن گزر گئے جب پاکستان امریکہ کے دبائو میں آنے پر مجبور تھا اب پاک فوج نے نئی سٹریٹجک پالیسی تشکیل دی ہے جسے ’’باجوہ ڈاکٹرائین‘‘ کا نام دیا گیا ہے جس کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب ’’پاکستان کو نہیں بلکہ دنیا کو ڈومور کرنا چاہیئے‘‘۔ پاک فوج گزشتہ ستر سال سے دہشتگردی کیخلاف جنگ لڑکر مضبوط اور مستحکم ہوچکی ہے۔ روس چین ترکی اور ایران پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب پاکستان تنہا نہیں رہا۔ جو امریکن اہلکار روس کیخلاف افغان جنگ میں شامل رہے اور سابق سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ افغانستان کی ذمہ داری پاکستان پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے صدر ٹرمپ کی ٹویٹ سے بہت پہلے یہ پالیسی بیان جاری کردیا تھا کہ پاکستان اب ڈومور نہیں کریگا۔ رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے جنرل باجوہ کو جنرل مشرف سمجھ کر بڑی غلطی کی ہے۔ ترکی چین اور جاپان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا برملا اعتراف کرچکے ہیں۔ پاک فوج نے امریکہ کی معاشی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ پاکستان کا چین پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ جنوبی ایشیا تبدیل ہوچکا ہے اور اب پاکستان کو امریکہ کی نہیں بلکہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے۔
امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس نے ایک بیان میں کہا ہے کہا مریکہ پاکستان سے رابطے میں ہے کیونکہ پاکستان کے تعاون کے بغیر امریکی افواج افغانستان میں نقل و حرکت نہیں کرسکتیں اور نہ ہی افغانستان سے باہر نکل سکتی ہیں۔ پاکستان کو امریکی اسلحہ کی ضرورت نہیں رہی اب چین اسکی دفاعی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور پہلے ہی پالیسی بیان جاری کرچکے ہیں کہ ’’پاکستان نے ڈالروں کیلئے نہیں بلکہ امن اور استحکام کیلئے جنگ لڑی‘‘۔ پاک فوج دفاعی لحاظ سے پاکستان کو مستحکم کرچکی ہے افغانستان کا استحکام امریکی اور نیٹو افواج کی ذمہ داری ہے۔ رپورٹ کیمطابق پاک فوج نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں امریکی اور نیٹو افواج سے کہیں زیادہ سرگرم اور فعال کردار ادا کیا۔ برطانوی سکیورٹی تھنک ٹینک کی رپورٹ پاکستان کے عوام کیلئے مسرت اور اُمید کا پیغام ہے۔ اس غیر جانبدار رپورٹ سے پاک فوج کے وقار میں ملکی اور عالمی سطح پر اضافہ ہوا ہے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے سیاستدان پاک فوج کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے امن کے قیام کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ کسی سیاستدان کی ایک انگلی بھی ’’شہید‘‘ نہیں ہوئی۔ پاکستان کے عوام اپنی فوج پر فخر کرتے ہیں۔ سروے کیمطابق پاک فوج ریاست کا مقبول ترین ادارہ ہے۔ شریف خاندان کیخلاف کرپشن کے الزامات پر احتساب عدالت میں چلنے والے مقدمات کی سماعت مکمل ہونیوالی ہے۔ میاں نواز شریف کی صدارت اور نااہلی کی مدت کے سلسلے میں اپیلیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ شریف خاندان نے ممکنہ سزائوں سے بچنے اور اپنا سیاسی مستقبل بچانے کیلئے عوامی دبائو بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کا اظہار وزیراعظم پاکستان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا یہ مہم جویانہ فیصلہ ریاست کی سلامتی کیلئے تشویشناک ہے۔ غیر جانبدار تبصرہ نگاروں کیمطابق شریف خاندان عدالتی اور قانونی جنگ ہار چکا ہے اور اس نے عدلیہ کیخلاف کھلی جنگ شروع کردی ہے۔ عوام نے اگر مقتدر ریاستی اداروں کا ساتھ نہ دیا تو پاکستان کے دشمن ممالک پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں کامیاب ہوجائینگے۔ وقت دعا ہے اللہ پاکستان کا حامی و مدد گار ہو اور پاکستان کے عوام اپنے دوست اور دشمن میں تمیز کرنے کے قابل ہوجائیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024