پاکستان کی سیاسی فضاء مکدر ہو چکی ہے، لگتا ہے قانونی محکمے اور سیاست دان اپنے وجود کی لڑائی میں مصروف ہیں، ایک دوسرے کو ایسے ایسے القاب سے نواز رہے ہیں جو پارلیمانی الفاظ نہیں کہلاتے، میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ججز بھی انسان ہوتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر کوئی سیاست دان کچھ بول رہا ہے اسکا پس منظر کیا ہے اسکے اندر کیا معنی چھپے ہیں۔ لوگوںکو یہ بھی خطرہ لاحق ہے کہ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ پر گرفت مضبوط رہی تو جس طرح انتخابی اصلاحات کمیٹی نے سینٹ کے کاغذات نامزدگی جمع کرتے ہوئے جو ’’منفی اصلاح‘‘ کا کام کیا ہے کہ جس میں امیدوار سے نہ اسکی جائیداد بیرون ملک یا اندرون ملک پوچھی جائے، نہ انکی قومیت پوچھی جائے نہ پوچھا چاہے کہ انکے پاس اقامہ یا کسی اور ملک کا پاسپورٹ تو نہیں اس صورتحال میں اگر مسلم لیگ سینٹ میں قدم جماگئی تو پھر قانونی اداروں کی ’’اصلاحات‘‘ بھی ہونگی جو یقیناً اپنی پسند کی ہی ہونگی، جہاں جہاں انہیں تکلیف پہنچی ہے وہاں وہاں وہ خاص نظر کرم کرینگے۔ اپنے مطلب کے وقت حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے والی پیپلز پارٹی تمام انتخابی اصلاحات پر خاموش ہے چونکہ وہ بھی اسی کشتی میں سوار ہیں جس میں حکومتی پارٹی۔ رہا سوال اس بات کا پی پی پی سینٹ میں آسکے گی یا نہیں اسکی انہیں پرواہ اس لئے نہیں کہ مسلم لیگ بھی انکی مرضی کا کام کررہی ہے ان خاص موضوعا ت پر۔ یہ بھی طے ہے کہ پی پی پی اسوقت عوام میں اپنی ’’پذیرائی‘‘ کا علم رکھتی ہے جہاں اسے ضمنی انتخابات میںدو لاکھ ووٹوںکے حلقوں میں دو تین ہزار ووٹ ملتے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو شہید اور بے نظیر شہید کی پارٹی جسکے لئے یہ مشہور تھا اور ایسا تھا بھی اگر ’’بجلی کے کھمبے‘‘ کو بھی الیکشن میں کھڑا کردیں تو اسکے جیتنے کی پیشنگوئی کی جاتی تھی، اسکا یہ حال ہے! پیپلز پارٹی کے تمام لیڈران بشمول بلاول بھٹو آنے والے انتخابات میں کامیابی کی بھڑکیں مار رہے ہیں تمام ضمنی انتخابات کے نتائج دیکھنے کے باوجود مگر انہیں حوصلہ ہوجاتا اپنے رہنماء شریک چئیرمین صاحب صدر آصف علی ذرداری کے ان بیانات سے جب وہ کہتے ہیں کہ ’پنجاب بھی ہمارا ہوگا، مرکز میں بھی ہم ہونگے۔ ہم جب چاہیں میاں صاحب کو حکومت سے نکال پھینکیں۔ آصف علی زرداری کے ان دعووں میں انکی دولت نظر آتی ہے، چونکہ جب ووٹ سے اسمبلی، یا سینٹ نہیں تو نوٹ سے سہی۔ بد قسمتی سے اسمبلیوںکے ممبران بھی اپنے گلوں میں اپنی قیمت کی تختی لگائے بیٹھے ہیں جہاں اسمبلی کے اراکین گائے بکری کی طرح بک رہے ہوں وہاں وہ اراکین کونسے عوام کی فلاح و بہبود یا ملک کے مفاد میں کام کررہے ہونگے ۔ یہ تو صرف آصف علی زرداری یا میاں صاحب کے ہاتھوں بکنے کیلئے ہی نہیں کسی غیرملک کے ہاتھوں بکنے کو تیار ہوتے ہیں۔ آج جب ہم سفارتی طور پر سینہ ٹھوک کر پاکستان کی دوستی کا مظاہرہ کرنے والے، ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے والے سعودی عرب میں دہشت گردی کے خلاف لڑنے کیلئے پاکستان کی بہادر افواج کو بھیجنے کی بات ہوتی ہے، ملک کی معیشت، ملک کے تعلقات کو ایک طرف رکھ کر اس معاملے کو اسمبلیوں میں لاکر بحث کرنے کی بات کرتے تو اسکی پشت پر پیسہ ہی تو ہے، جو کوئی ایسا ملک لگا رہا ہوگا جو سعودی عرب میں پاکستان کی افواج بھیجنے کو پسند نہیں کرتا ہوگا، اس معاملہ کا اسمبلیوں میں لانے کے بجائے کیوںایسا نہ ہوکہ صرف سپاہ سالار ذمہ دار ہوں ورنہ اپنی قیمیتں لگائے بیٹھے اراکین یا ہمارے لیڈران دوران بحث نہایت قابل اعتراض اور نامعقول باتیں کرینگے جس سے ہمارے دیرینہ دوستوں کو تکلیف ہی پہنچے گی اور یہ لوگ جنہیں دوستی کا احترام نہیں جنہیں ملک کا خیال نہیں وہ جس ملک کے ایماء پر افواج بھیجنے کی مخالفت کررہے ہونگے وہاںسے بھاری ادائیگیاں لینگے، اپنے مفاد پرستانہ اقدام سے وہ حکومت وقت کو خوامخواہ مشکل میں ڈالیں گے۔ کاش وہ چاہ بہار بندرگاہ جو ہمارے سی پیک کے مقابلے میں ہندوستان آپریشن کرنے کو بھارتی سرمایہ سے لگائی گئی ہے اسے بھارت کے حوالے کرنے کے خلاف کوئی قراردا د بھی پاس کر سکیں مگر وہ ایسا نہیں کرینگے۔ اسوقت جب امریکہ، اسرائیل کے ساتھ ملکر بھارت نے ہماری سفارت کاری کو ناکام کیا ہوا ہے آج امریکہ ہمیں واچ لسٹ میں ڈالنے کی بات کر رہا ہے ہم اپنے دوستوں کے ہمراہ دوستی کو مزید مضوط کریں نہ کہ انہیں کمزور کرنے کی کوششیں کریں۔ پاکستان کے تعلیم یافتہ طبقے کو چاہئے کہ وہ ایسے لوگوں کو جنہیں ملک کا مفاد ہی عزیز نہ ہو انہیں انتخابات میں عبرتناک شکست دیں۔ تعلیم یافتہ لوگوں سے مطلب یہاں تحریک انصاف نہیں چونکہ انکے رہنما کو شادیوں سے فرصت ہو تو اس معاملے پر آواز اٹھائیں جنکے اعصابوں پر صرف نواز شریف چھایا ہوا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024