21 فروری کو عالمی سطح پر مادری زبانوں کے دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے، جس کا مقصد قوموں کو مادری زبان کی اہمیت سے روشناس کروایا جانا ہے۔ دنیا بھر کی سبھی قومیں اس دن کو نہایت جوش و خروش سے مناتی ہیں۔پنجابی زبان کے اہم ترین شاعر بابا فریدؒ نے اپنے ایک اشلوک میں اپنے وطن اور دھرتی کی اہمیت کو یوں اجاگر کیا ہے…؎
فریدا خاک نہ نندئیے، خاکو جیڈ نہ کوئے
جیوندیاں پیراں تلے مویاں اپر ہوئے
جب تک انسان اپنی دھرتی ماں کی عزت نہیں کرتا، اپنی دھرتی ماں کی زبان کا احترام نہیں کرتا، اور اپنی دھرتی کے کلچر، تہذیب وتمدن کی قدر نہیں کرتا اس وقت تک اس کی زندگی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے ۔ اقوام متحدہ کی طرف سے واضع طور پر ہدایات کی جا چکی ہیں کہ دنیا میں پیدا ہونے والے ہر انسان کا یہ پیدائشی حق ہے کہ اسے اس کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے کیونکہ کوئی بھی بچہ جب تعلیم حاصل کرنے کی عمر کو پہنچتا ہے اس وقت تک اپنے ماحول، والدین، بزرگوں، رشتہ داروں سے کم و بیش 3ہزار الفاظ سیکھ چکا ہوتا ہے مگر پاکستان خصوصا پنجاب کے سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے داخل کروائے گئے بچوں کے وہ تین ہزار الفاظ سکول میں رائج طریقہ کار کے بدولت قطعی طور پر ضائع چلے جاتے ہیں اور یوں بچہ لاشعوری طور پر اپنے والدین، و دیگر رشتہ داروں کو ان پڑھ ، کم علم یا جاہل سمجھنے لگتا ہے اور اپنی مادری زبان کو وہ احترام ، عزت اور محبت نہیں دے سکتا جس کی وہ اہل ہے قیام پاکستان سے تاحال پنجابی قوم اپنی زبان کو پرائمری سطح سے میٹرک تک لازمی مضمون کی حیثیت سے نافذ کرنے کا مطالبہ کرتی چلی آئی ہے مگر انہیں کی منتخب کی گئی حکومتوں نے ہمیشہ اس مطالبے کو نظر انداز کیا کس قدر حیرت اور دکھ کی بات ہے کہ اسی دھرتی سے منتخب ہو کر آنے والے پارلیمینٹرین جن کی اکثریت پنجاب کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے وہ ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوتے ہی ’’پنجابی‘‘ زبان بولنے، لکھنے، پڑھنے یا اس کے احیاء کے لئے نہ خود ہی کبھی کوشاں ہوئے اور نہ ہی اہل پنجاب کے مطالبے پر غور کرنے کا سوچا ۔
’’بھاپا کہتا ہے کہ اگر مملکت خدا داد پاکستان میں سندھی زبان، پشتو زبان کو لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائے جانے پر وفاق پاکستان کو کسی صورت بھی کوئی گزند نہیں پہنچتا تو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اپنی زبان وہاں پر لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائے جانے پر کیا خطرہ لاحق ہے۔‘‘
میں حیراں و پریشاں ’’بھاپے‘‘ جیسے کئی حقیقت پسند محب وطن پاکستانیوں کو جانتا اور ان کے جذبات کو سمجھتا ہوں مگر انگریزی سماج کے پیروکار طبقے کو کیسے سمجھائوں کہ آپ میں سے بیشتر اس پنجاب کے قصبوں، دیہاتوں اور دور دراز کی بستیوں سے پڑھنے لکھنے سیکرٹریٹ کے ’’اختیاراتی شیش محل‘‘ تک پہنچے ہیں تو کیا آپ نہیں سمجھتے کہ پنجابی زبان کے پاس اپنا عظیم کلاسیکی ، علمی ادبی اور ثقافتی ورثہ ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔
فریدا خاک نہ نندئیے خاکو جیڈ نہ کوئے
یہ دھرتی جو ہمیں پالتی ، سنبھالتی ہے جس کی فضائوں میں ہم سانس لیتے ہیں جس کی فرحت بخش غذا اور پانی ہمیں توانائیوں سے مالا مال کرتا ہے اس دھرتی اس مٹی کی ’’نندیا‘ کرنا شرف انسانی کی توہین ہے۔ ہماری دھرتی ماں تو اتنی سخی اتنی رحمدل ہے کہ ساری زندگی ہماری پرورش کرنے ہمیں پالنے ، سنبھالنے، سنوارنے کے بعد جی ہم اس دار فانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور ہمارے عزیز جن کے لئے ہم رات دن محنت کرتے تھکتے ہیں وہ بھی ہمیں زیادہ دیر نہیں سنبھال پاتے تو دھرتی ماں ہمیں اپنی آغوش میں ڈھانپ لیتی ہے۔ دیار غیر میں بسنے والے ’’پنجابی‘‘ اپنی مادری زبان سے کس قدر ترسے ہوئے ہوتے ہیں یہ ان کا دل ہی جانتا ہے کہ اپنی دھرتی اپنی زبان کس قدر اہم ہوتی ہے… اس میں کتنی کشش ہوتی ہے ہماری دھرتی کی پہنچان ہماری شکلوں پر ابھر آتی ہے اور یہی کشش پنجابیوں کو ’’کشش شکل‘‘ میں باندھ کر ایک دوسرے کے گلے لگنے پر اکساتی ہے۔ وہ دور ہی سے ایک دوسرے کو دیکھ کر پکار اٹھتے ہیں او بھائی جی … تسیں پنجابی او … کتھوں دے ، لاہور دے!… یار میرے نانکے لاہوری نیں… پر ابا جی نے ساری حیاتی بہاولپور وچ گزاری چھڈی… تسیں کتھوں دے او… اور پھر دوسرا بتانے لگتا ہے کہ اس کی جڑیں کہاں سے ہیں…
کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہمیں کسی گہری سازش کی وجہ سے ہماری اپنی زبان، ہمارے والدین ابا و اجداد کی زبان، کلچر، روایات اور اقدار سے دور کر دیا گیا۔ہم پورے پنجاب کے باسی اپنے وزیر اعلی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ پنجابیوں کو اپنی مادری زبان پڑھنے کا بنیادی حق بحال کریں پورے پنجاب میں پرائمری سے بی اے تک لازمی مضمون کی حیثیت سے پنجابی زبان کو پڑھائے جانے کے احکامات صادر کریں تاکہ ہم اور پورا پاکستان صوفیا کی زبان کو پڑھ کر ملک میں امن و آشتی اور بھائی چارے کی فضا کو قائم کر سکیں… اور ساری ارباب اختیار سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے من میں جھانکیں شاید انہیں اپنے لہو میں ہمکتی مائوں کی پنجابی لوریاں سنائی دیں اور وہ اپنی ’’مادری زبان‘‘ کا حق پورے پنجاب کو لوٹانے کے لئے عملی اقدامات کر سکیں۔
غیراں ہتھوں ہر نائیں کیوں
بول پنجابی ڈرنائیں کیوں
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38