شاہ زیب قتل کیس: سپریم کورٹ نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی محمد مالک اور ایڈیشنل ڈائریکٹر فقیر محمد کوکل طلب کرلیا. ایف آئی اے نے مجرموں کو اوپن ہینڈ دیا ہوا ہے۔ چیف جسٹس
شاہ زیب قتل کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پہلے شاہ رخ کی عمر کا تعین کس نے کیا اور اسے اٹھارہ سال سے کم عمر کیوں قرار دیا گیا۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ پولیس سرجن نے شاہ رخ کو اٹھارہ سال سے کم عمر قرار دیا تھا جس پر چیف جسٹس نے ڈی آئی جی شاہد حیات کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کو پتا تھا کہ عمر کا غلط تعین ہوا ہے تو ایکشن کیوں نہیں لیا۔ پولیس کا جو بھی کیس آتا ہے اس میں ایسی بے قاعدگیاں ہوتی ہیں۔ دوران سماعت شاہ رخ جتوئی کے وکیل ابراہیم ستی نے سپریم کورٹ کی کارروائی پر اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ابتک جوہوا شاہ رخ جتوئی کو صرف پھانسی لگنا باقی ہے. مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چل رہا ہے،سپریم کورٹ کی کارروائی ٹرائل کورٹ پر اثرانداز ہو رہی ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ کیا آپ چاہتے ہیں ہم شاہ رخ جتوئی کو چھوڑ دیں ۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ شاہ رخ جتوئی کو ملک سے فرار کروانے والوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے جس ٹریول ایجنٹ نے پاسپورٹ کے بغیر ویزا جاری کیا اسے اور بورڈنگ کارڈ جاری کرنے والے کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ ڈائریکٹر لیگل ایف آئی اے نے بتایا کہ ائیرپورٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں ملی۔ جس پر شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کراچی کسی اور ملک کا حصہ ہے جہاں سے فوٹیج نہیں مل رہی۔ چیف جسٹس نےکہا کہ ایف آئی اے نے مجرموں کو اوپن ہینڈ دیا ہوا ہے۔ دوران سماعت پولیس نے کیس میں پیش رفت کی رپورٹ جمع کرائی، جس کے مطابق آلہ قتل پستول ملزم کے بھائی شہزاد جتوئی کی گاڑی سے برآمد ہوا۔ ملزم شاہ رخ جتوئی کےزیراستعمال گاڑی ٹرانسفرلیٹر پر ہے. سپریم کورٹ نے مقدمے کا مکمل ریکارڈ اورڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی محمدمالک اور ایڈیشنل ڈائریکٹر فقیر محمد کو طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔