شریف برادران اہلیت کیس … نواز شریف کا عدالت میںآنا ضروری ہے اب فیصلے کا وقت آ چکا : جسٹس شیخ حاکم علی
اسلام آباد (ریڈیو نیوز + نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں شریف برادران اہلیت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ حاکم علی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کا عدالت میںآنا ضروری ہے اب فیصلے کا وقت آ چکا ہر نکتے پر دلائل مکمل ہو چکے ہیں۔ عدلیہ کے بارے میں جو ریمارکس نواز شریف نے دیئے ان کی تردید سپیکر پنجاب اسمبلی کیسے کر سکتے ہیں موجودہ ججز کے بارے میں نواز شریف کے ریمارکس پر جواب نہیں دیا گیا۔ جسٹس شیخ حاکم علی نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے پاس اختیار ہے کہ وہ نااہل شخص کو اسمبلی میں جانے سے روک دے آرٹیکل 187کے تحت سپریم کورٹ کو وسیع اختیارات حاصل ہیں اب ہم انصاف کریں گے ہم دیکھیں گے کہ اہلیت کیس میں بڑا بینچ بنائیں معاملہ الیکشن ٹریبونل کو بھیجیں ریٹرننگ افسر کو بھیجیں یا خود فیصلہ کریں انہوں نے کہاکہ الیکشن کمشن کی جانب سے کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کئے جانے سے نااہلیت ختم نہیں ہوتی جو شخص وزیراعلیٰ بن جائے کیا وہ نا اہل نہیں ہو سکتا کیس کی سماعت جسٹس موسیٰ کے لغاری ،جسٹس سخی حسین بخاری اور جسٹس شیخ حاکم علی نے کی سپیکر پنجاب اسمبلی کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈووکیٹ رضا فاروق نے اپنے دلائل میں کہاکہ سپیکر تمام ارکان کے حقوق کا محافظ ہوتا ہے اس لئے وہ کسی رکن جو لیڈر آف دی ہاوس بھی ہو کے تحفظ کیلئے عدالت سے رجوع کر سکتا ہے انہوں نے کہاکہ ہائیکورٹ کسی اجنبی کی درخواست پرفیصلہ دے سکتی ہے تو سپیکر تو ہاوس کا کسٹوڈین ہے وہ درخواست کیسے دائر نہیں کر سکتا جسٹس شیخ حاکم علی نے کہاکہ سپیکر ہاوس کا کسٹوڈین ہے ارکان کے ذاتی افعال کا نہیںوہ ذاتی معاملات کا دفاع کیسے کر سکتا ہے جسٹس موسیٰ نے کہاکہ سپیکر الیکشن پٹیشن میں مداخلت نہیں کر سکتا اس صورت میں تو آرٹیکل 225غیر موثر ہو جائے گا جسٹس شیخ حاکم علی نے کہاکہ شریف برادران پر ڈھائی ارب روپے کے نادہندہ ہونے کا الزام ہے اور کسی نے نہیں بتایا کہ انہوں نے یہ قرض ادا کر دیا ہے یا نہیںایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ شریف برادران نادہندہ نہیں مالیاتی اداروں کے ساتھ ان کا تصفیہ ہو چکا ہے اور انہوں نے قرض کے بدلے اپنی پراپرٹی جمع کرادی ہے جسٹس شیخ حاکم علی نے کہاکہ اس بات کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ ہائیکورٹ نے یہ بات اپنے فیصلے میں لکھی ہے جسٹس شیخ حاکم علی نے کہاکہ ہائیکورٹ نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے عدلیہ کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کی ہے خواجہ حارث نے کہا کہ ان کو ایک جج پر اعتراض تھا اور آرٹیکل 63میں عدلیہ کا لفظ استعمال ہوا ہے جج کا نہیں جسٹس شیخ حاکم علی نے کہاکہ کیا جج عدلیہ کا حصہ نہیں ہے۔مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی ۔ اس روز احمد رضا قصوری دلائل دینگے۔
جسٹس شیخ حاکم علی
جسٹس شیخ حاکم علی