انصاف تہہ وبالا اور بول بالا

Dec 21, 2024

فضل حسین اعوان....شفق

10 سال کی سارہ شریف کے اپنے سگے باپ کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کی خبر سن کر انسان لرز کے رہ جاتا ہے۔اس قتل میں عرفان شریف کے ساتھ ان کی اہلیہ بنینش بتول اور ان کے بھائی فیصل ملک بھی شریک جرم تھے۔عدالت میں کیس کی سماعت کے آخری دنوں میں عرفان نے اپنی بیٹی کے قتل کی مکمل ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی۔ عرفان کا قصور تو ہوگا ہی مگر جس طرح سارہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہ سوتیلے پن کی کوکھ ہی سے جنم لے سکتا ہے۔بینش سارہ کی سوتیلی ماں ہے۔سارہ کی سگی ماں کا نام اولگا ہے جسے عرفان نے 2009ء میں طلاق دے دی تھی۔سارہ کو بیٹ سے پیٹا گیا، استری سے جسم کو داغا گیا،دانتوں سے کاٹا گیا۔جب وہ تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے جان جانِ آفریں کے سپرد کر دیتی ہے تو یہ لوگ اس کی لاش کو چھوڑ کر پاکستان چلے جاتے ہیں۔یہ گزشتہ سال 9 اگست 2023 ء کا ووکنگ میں ہونے والا وقوعہ ہے۔پولیس کو خبر ہوتی ہے تو ان کو پاکستان سے ڈھونڈ نکالا جاتا ہے۔یو کے کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان تینوں کو واپس جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔کیس کی سماعت ہوتی ہے۔17 دسمبر 2024 ء کو فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔سارہ کے والد عرفان شریف کو سزا سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ انھیں 40 برس جبکہ ان کی اہلیہ کو 33 برس جیل میں گزارنا ہوں گے۔فیصل کو 16 برس قید سنائی گئی۔برطانوی نظام انصاف کو داد دینا بنتی ہے کہ جرم سرزد ہونے کے ڈیڑھ سال ہونے سے بھی قبل مجرموں کو تلاش کر کے سزا سنا دی گئی۔پاکستان میں یہی واقعہ ہوا ہوتا تو انہی میں سے ایک مدعی بن کے دوسروں پر کیس کرواتا اور پیروی نہ کرنے کی صورت میں یا سزا ہونے پر معاف کر کے ملزموں کو گھر لے آتا۔ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔برطانیہ میں ریاست نے مدعی بن کے وارثوں کی ایک لاوارث بچی کو انصاف دلا دیا اور وہ بھی بلا تاخیر۔
برطانیہ میں ہی کراؤن کورٹ نے ایک خاتون کے 31 سالہ شوہر اصغر شیخ کو پونے آٹھ سال قید کی سزا سنائی جبکہ اس کے 55 سالہ سسر خالد اور 52 سال کی ساس شبنم کو سات 7 سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔یہ لوگ پاکستان سے عنبرین فاطمہ کو ارینج میرج کر کے 2014ء میں برطانیہ لے گئے۔پاکستان میں یہ سکول ٹیچر تھیں۔وہاں اس کے ساتھ ناروا سلوک شروع ہو گیا۔اسے دماغ ماؤف کرنے والی میڈیسن دی جاتی رہی جس کے اس کی صحت پر مضر اثرات ہوئے۔بری حالت میں بھی اسے ہاسپٹل نہ لے جایا گیا۔جب لے جایا گیا تو وہ ہوش میں نہیں تھی۔ اب وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں وینٹیلیٹر پر ہے۔یہ معاملہ سامنے آنے کے ایک سال کے اندر عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔اسی طرح ایک اور خاندان بھی پاکستان سے ایک لڑکی کو ارینج میرج کے بعد برطانیہ لے گیا۔اس لڑکی کا نام نہیں بتایا گیا۔اس کے ساتھ بھی سسرال نے بہیمانہ سلوک کیا۔اس کی مار پیٹ معمول بن گیا تھا۔اسے زبردستی انجن آئل بھی پلا دیا گیا۔پاکستان سے لے جاتے وقت یقین دلایا گیا تھا کہ اس کی سٹڈی وہاں جاری رہے گی۔چند ہی ہفتوں بعد اس سے موبائل اور پاسپورٹ چھین لیے گئے۔اسے گھر سے باہر نکلنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ تشدد روز مرہ کا معمول بن گیا۔اسے کپڑے میں لپیٹ کر مارا جاتا۔وہ تو ایک مرتبہ سارے گھر والے کہیں گئے تھے۔اس لڑکی کے رشتہ دار اسے ملنے چلے آئے۔اس کی جسمانی اور ذہنی بری حالت دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی۔اس کیس کی سماعت بھی چند ماہ میں مکمل ہو گئی۔اس میں اس کے خاوند شعیب ارشد کو آٹھ سال ،سسر ارشد صادق کو تین، ساس نبیلہ شاہین کو چار سال جب کے شوہر کے بھائی عقیل اور بہن زیب کو دو دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔ان پر سلیوری (غلامی)کی دفعات لگائی گئیں۔مذکورہ میں کوئی بھی ایک کیس ایسا نہیں جس کے شروع سے آخر یعنی فیصلہ آنے تک پونے دو سال بھی لگے ہوں۔اسی کو انصاف کا بول بالا کہا جاتا ہے جب کہ ہمارے ہاں انصاف تہ و بالا ہوا پڑا ہے۔ایس ایم ظفر کہتے ہیں: میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے واشنگٹن میں تھا۔ میری ملاقات وہاں کے ہائی کورٹ کے ایک جج سے ہوئی۔ جج نے اپنی سٹیٹ میں مقدمات کی تاخیر اور جلد فیصلہ نہ ہونے کی شکایت کی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ کے ہاں بھی یہ مسئلہ درپیش ہے؟میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے ہاں نہ صرف یہ مسئلہ درپیش ہے بلکہ تاخیر کا معاملہ بڑی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ایک فوجداری مقدمہ میں تفتیش سے لے کر ہائی کورٹ تک فیصلہ ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ میں جواب دینے ہی والا تھا کہ مجھے خیال آیا کہ مناسب ہوگا پہلے میں جج صاحب سے ان کی عدالتوں کی صورتِ حال سے آگاہی حاصل کروں…چنانچہ میں نے ان سے پوچھا آپ کے یہاں جیوری ٹرائل کی وجہ سے ماتحت عدالت مقدمہ جلد طے ہو جاتا ہوگا اور وہ تاخیر، جس کا ذکر آپ کر رہے ہیں، اپیل کورٹ میں ہوتی ہوگی؟ جج صاحب نے کہا کہ ایسی بات نہیں۔ ہمارے ہاں مقدمات کی باری بہت دیر سے آتی ہے اور یوں تفتیش ہوجانے کے باوجود مقدمے عدالت میں پڑے رہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جیوری کی تعیناتی پر وکلاء صاحبان کافی لے دے کرتے ہیں، اس میں بھی کافی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ اس بات سے میری کچھ ہمت بڑھی اور میں نے پوچھا کہ پھر بھی کتنی تاخیر ہو جاتی ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ انصاف جلد نہیں ہوتا۔ میں نے اصرار کیا تو انہوں نے بتایا کہ اوسطاً ایک مقدمے کے شروع ہونے اور ہائی کورٹ سے فیصلہ ہونے تک نو مہینے سے سال لگ جاتا ہے۔ آخر میں ایک جھلک آپ کو دکھاتے ہیں پاکستان میں انصاف کی۔یہ اسلم خان منگول ہیں۔وہاڑی سے ان کا تعلق ہے۔سعودی عرب میں ایک عرصہ رہے۔پاکستان زر مبادلہ لائے حکومت کو درخواست دی کہ وہ آئل مل لگانا چاہتے ہیں انہیں جگہ کی ضرورت ہے۔ان کو دو کنال 13 مرلے اراضی50 ہزار فی مرلہ کے حساب سے الاٹ کر دی گئی۔14 قسطیں بنائی گئیں۔جن میں سے کچھ جمع کروا دی گئیں۔ان کو یہ زمین 1987ء میں الاٹ ہوئی۔اسی زمین کے کچھ اور دعویدار بھی نکل آئے۔معاملہ اس وقت سے اب تک انتظامیہ سے ہوتے ہوئے عدالتوں میں ہے۔اگلی تاریخ ہائی کورٹ میں لگنی ہے۔کب؟اس کے بارے میں انہیں علم نہیں ہے. جہاں سے فیصلہ ہوگا تو اگلا فورم سپریم کورٹ ہے. اسلم خان صاحب کی عمر اس وقت 82 سال ہے. کیس شروع ہوا تو 50 سے کم تھے. حتمی فیصلہ شاید ان کے پوتے سنیں گے۔انصاف کے تہ و بالا ہونے کی اس سے بڑی مثالیں بھی موجود ہیں۔

مزیدخبریں