خصوصی عدالت نے چھ سال کی طویل سماعت کے بعد آخرکار پاکستان کے سابق آرمی چیف کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے۔ یہ خصوصی عدالت تین ججوں پر مشتمل تھی جس میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذراکبر اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم شامل تھے۔ جسٹس نذراکبر نے اختلافی نوٹ تحریر کیا کہ جنرل مشرف کے خلاف الزام ثابت نہیں ہوتا جبکہ دو ججوں نے سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا۔ خصوصی عدالت کے فیصلے کے مطابق دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے 2007ء میں آئین کو پامال کیا اور آئین کے آرٹیکل نمبر 6 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے جس کی سزا موت ہے۔ خصوصی عدالت کے اس فیصلے کے بعد پاک فوج کی جانب سے شدید اور غیرمعمولی رد عمل سامنے آیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ افواج پاکستان نے فیصلے کو شدید درد اور اضطراب سے لیا ۔ سابق صدر جنرل مشرف غدار نہیںہیں۔ ان کے خلاف مقدمے میں آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ ایک شخص کے خلاف کارروائی عجلت میں چلائی گئی۔ جنرل مشرف نے چار جنگیں لڑیں ، وہ صدر پاکستان چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور آرمی چیف رہے توقع ہے کہ آئین کے مطابق انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔خصوصی عدالت کے جسٹس وقار احمد سیٹھ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں چند اشتعال انگیز افسوسناک غیرآئینی اور غیر قانونی الفاظ استعمال کرکے پورے مقدمے کے بارے میں سنجیدہ سوالات کھڑے کر دئیے ہیں کیونکہ ان الفاظ میں نفرت اور تعصب واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔ اب یہ سپریم کورٹ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فیصلے پر ترجیحی بنیادوں پر نظرثانی کرے۔
آئین اور قانون کے ماہرین کی جانب سے خصوصی عدالت کے مختصر فیصلے کے بارے میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن اور بیرسٹر حامد خان نے خصوصی عدالت کے مختصر فیصلے کی تائید اور حمایت کی اور اسے آئین اور قانون کے عین مطابق قرار دیا جبکہ پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر اور موجودہ اٹارنی جنرل انور منصور نے خصوصی عدالت کے فیصلے سے اختلاف کیا اور کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف سماعت آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق نہیں کی گئی۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے لیڈروں نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو جمہوریت کے استحکام کے لیے خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ اس فیصلے کے بعد آئندہ کوئی آمر جرنیل ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ پاکستان کی حکومتی جماعت تحریک انصاف نے کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک بیان میں کہا کہ ریاست کے تمام اداروں کو آئین اور قانون کی حدود کے اندر رہنا چاہیے۔ ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی قومی مفاد میں نہیں ۔ پاک فوج نے امن کے قیام میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ پاکستان کے عوام حیران اور پریشان ہیں کہ سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کا مؤقف مختلف ہوتا ہے مگر جب وہ حکومت میں آ جاتے ہیں تو وہ اپنا پرانا موقف تبدیل کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں کج فہمی اور منتشر بحث کا کلچر عام ہے۔ عدالتی فیصلوں پر وہ لوگ بھی بحث کرتے نظر آتے ہیں جنہوں نے کبھی آئین کی کتاب بھی نہیں دیکھی ہوتی۔ عدلیہ کے ججوں نے آئین اور قانون اور ان شواہد کی روشنی میں فیصلہ دینا ہوتا ہے جو ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں مگر افسوس کہ پاکستان میں عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید اور بحث آئین اور قانون کی بجائے اپنی مرضی منشا اور پسند کے مطابق کی جاتی ہے۔ جنرل مشرف کے خلاف فیصلے پر بحث کرتے ہوئے لفظ غدار پر بہت تنقید کی گئی ہے اور یہ تاثر عام ہے کہ جیسے کہ ججوں نے کسی شخص کو غدار قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آئین کا آرٹیکل نمبر 6 ہر اس شخص کو غداری کا مجرم قرار دیتا ہے جو آئین کو توڑے یا آئین کو معطل کر دے۔ جنرل پرویز مشرف ہرگز ان معنوں میں غدار نہیں ہیں جن معنوں میں یہ لفظ عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ملک سے غداری اور آئین سے غداری الگ الگ ہیں۔ اسی طرح حلف سے غداری کی سزا بھی عہدے اورسرزد ہونے والے اقدام کی نوعیت کو مدنظر رکھ کر متعین کی جاتی ہے۔ پاک فوج اپنے ہی ایک اعلیٰ افسر کو ریاست سے غداری کے جرم میں سزائے موت دے چکی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا جرم اس نوعیت کی غداری سے مختلف ہے۔ انہوں نے چونکہ دو بار 1999ء اور 2007ء میں آئین کو توڑا اور معطل کیا۔ اس لیے وہ آئین کی نظر میں سنگین غداری کے مرتکب ہوئے۔ پاکستان کے ریاستی ادارے عدلیہ پاک فوج پارلیمنٹ بیرونی خطرات اور اندرونی استحکام کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جن کا وقار عوام کی نظر میں ہر صورت برقرار رہنا چاہیے۔ آئین میں Treason High کا ترجمہ سنگین غداری کے بجائے آئین کی پامالی کر دینا چاہئے۔
جنرل پرویز مشرف دبئی میں شدید بیمار ہیں اور وہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل بھی کر سکتے ہیں لہٰذا سب جانتے ہیں کہ اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا جائے گا۔ ان حالات میں درد اور اضطراب ناقابل فہم ہے جب کہ جنرل مشرف بارہ سال پہلے ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان کا پاک فوج کے ادارے کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رہا اور ان کے خلاف قومی جرائم کی فہرست طویل ہے۔ پاکستان کے دو وزیراعظم شہید ہوئے ایک کو پھانسی دی گئی ایک کو کرپشن کے الزام میں سزا سنائی گئی۔ ایک وزیراعظم کو نااہل قرار دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے پاکستان کے موجودہ ہردلعزیز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملازمت میں توسیع کے سلسلے میں جو فیصلہ سنایا ہے وہ عوام اور عسکری ادارے کے لئے اضطراب کا سبب ضرور بنا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا ڈاکٹرائن اندرونی اور عالمی سطح پر کامیاب رہا ہے جس کے مطابق یہ طے پایا تھا کہ اب پاکستان کی ریاست کسی اور ملک کی جنگ نہیں لڑے گی ۔ اس طرح پاک فوج کی ماضی کی پالیسیوں سے پاک فوج کے موجودہ ادارے کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ پاک فوج کی یہ سٹرٹیجی بھی کامیاب رہی کہ سابقہ جرنیلوں کی غلطیوں کا ذمے دار پاک فوج کے ادارے کو نہ ٹھہرایا جائے۔ پاک فوج کی نگرانی میں تین انتخابات ہو چکے ہیں۔ جمہوریت کا تسلسل برقرار ہے۔ فوج کے سابقہ جرنیلوں نے دہشت گردی کی جو فصل بوئی تھی اسے پاک فوج نے عسکری اور سویلین جانوں کا نذرانہ پیش کر کے کاٹا تھا۔ پاکستان اور افواج پاکستان کے دوست دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ میں شاندار اور دلیرانہ کارکردگی کو نہ صرف خراج تحسین پیش کرتے ہیں بلکہ پاک فوج کے اس کردار کو پاکستان کے دشمن ملکوں کے مذموم پراپیگنڈے کے خلاف ایک مضبوط دلیل کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین پاکستان کی سلامتی اور یک جہتی کا ضامن ہے لہٰذا قومی مفاد کا تقاضہ یہ ہے کہ ریاست کو آئین کے مطابق چلایا جائے ۔آئین کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے ۔ ریاست کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کریں اگر ریاست کے ادارے ایک دوسرے کو اپنی طاقت دکھانے لگے تو یہ پاکستان اور 22 کروڑ عوام کے لئے انتہائی بدقسمتی کی بات ہوگی۔ پاکستان کا آئین ریاست کے لیے آب حیات کی حیثیت رکھتا ہے جس کی روح کے مطابق ریاست کو چلانے کی ضرورت ہے۔ جب بھی پاکستان کے آئین سے انحراف کیا گیا یا اس میں طاقت کا عنصر شامل کیا گیا ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
پاکستان کے جو طاقتور اور بااثر لوگ ریاست کو آئین کے بجائے اپنی مرضی منشا اور طاقت کی بنیاد پر چلانا چاہتے ہیں وہ مہم جوئی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ان کی مہم جوئی پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان کے ریاستی اداروں اور 22 کروڑ عوام کو یہ جان لینا چاہیے پاکستان کا آئین ہی ریاست کی سلامتی اور آزادی کا ضامن ہے اگر آئین کو نہ چلنے دیا گیا تو پاکستان خدانخواستہ افراتفری نفسا نفسی مفاد پرستی کا شکار ہو جائے گااور طاقت کی بنیاد پر ریاست کو چلانے سے پاکستان خدا نخواستہ قبائلستان بن جائے گا ۔ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی پاک فوج کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے ان کو حلف پڑھ کر سنایا تھا اور یہ تاکید کی تھی کہ وہ کسی صورت بھی اپنے حلف کی خلاف ورزی نہ کریں اور آئین سے انحراف کا تصور بھی اپنے دل میں نہ لائیں۔ کاش ہم سب قائد اعظم کی اس نصیحت پر عمل کر سکیں تو پاکستان ان انشاء اللہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے کے جاری ہونے کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے نپے تلے الفاظ میں تفصیلی فیصلے کے اشتعال انگیز الفاظ کے سلسلے میں پاک فوج کے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا ہے اور عوام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاک فوج اپنے ادارے اور ریاست کا دفاع کرے گی اور بیرونی اندرونی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی ۔ وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل نمبر 209 کے مطابق جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اللہ پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024