رحمۃ للعالمینؐ اور خواتین پر شفقت
علامہ منیر احمد یوسفی
دینِ اِسلام پوری اِنسانیت کی دُنیا اور آخرت میں کامیابی چاہتاہے اور سرورِ کون ومکاں حضور سیّدنا رسول اللہؐ سارے جہانوں کے لئے رحمت ہیں ۔ اِمام الانبیاء حضور سیّدنا رسول اللہؐ کی ولادتِ باسعادت کے وقت معاشرہ بے شمار بُرائیوں اور خرابیوں کا مجموعہ تھا۔ غریبوں ‘ یتیموں ‘ خواتین اور نومولود بچیوں پر ظلم کی اِنتہا ہوچکی تھی۔ بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتاتھا۔
شانِ رحمۃ للعالمین ؐ کا ظہور تو ہردَور میں رہا ہے جس کا ذکرِ خیر حضرت سیّدنا عباس ؓ نے اپنے اُن نعتیہ اَشعار میں فرمایا جو آپ ؓ نے سیّدالمرسلین حضور سیّدنا رسول اللہ ؐ کی جناب میں غزوئہ تبوک سے واپسی پر عرض کیا تھا۔
قصیدۂ میلاد شریف:
حضرت سیّدنا ابوحُمَید ساعدی ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں: ’’ ہم اِمام الانبیاء خاتم النّبیین حضور سیّدنا رسول اللہ ؐ کے ساتھ غزوۂ تبوک میں تھے کہ اِمام الانبیاء حضور سیّدنانبی کریمؐ غزوۂ تبوک سے واپسی پر جب مدینہ منورہ کے قریب تشریف لائے تو فرمایا: یہ طابہ ہے اور یہ اُحد پہاڑ ہے‘ یہ ہم سے محبت کرتاہے اور ہم اِس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔
جب آپ ؐ غزوۂ تبوک سے مدینہ طیبّہ واپس تشریف لائے توحضرت سیّدنا عباس ؓ نے عرض کیا:
’’یارسول اللہ ؐ مجھے اِجازت فرمائیے کہ کچھ آپ کی مدح کروں (چونکہ حضور ؐ کی مدح خودا طاعت ہے اِس لئے) آپ ؐ نے اِرشادِ پاک فرمایا : فرمائیے اللہ آپ کے منہ کو سالم رکھے! تو حضرت سیّدنا عباسؓ نے یہ اَشعار آپ ؐ کے سامنے پڑھے ‘‘۔ ؎
’’زمین پر آنے سے پہلے آپ جنت کے سایہ میں خوشحالی میں تھے اور نیز ودیعت گاہ میں جہاں(جنت کے درختوں کے) پتے اُو پر تلے جوڑے جاتے تھے (یعنی آپ صلبِ آدم علیہ السّلام میں تھے۔ سو قبل نزول اِلی الارض کے جب وہ جنت کے سایوں میں تھے‘ آپ بھی تھے اور ودیعت گاہ سے مراد بھی صلب ہے جیسا اِس آیت میں مفسرین نے کہا ہے فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٍ (الانعام:98) اور پتے کا جوڑنااِشارہ ہے اُس قصہ کی طرف حضرت سیّدنا آدم ؑ نے جب منع کئے ہوئے درخت سے کھالیا اور جنت کا لباس اُترگیا تو درختوں کے پتے ملاملاکر بدن ڈھانکتے تھے یعنی اُس وقت بھی آپؐ مستودع میںتھے ) اِس کے بعد آپؐ نے بلاد (یعنی زمین) کی طرف نزول فرمایا اور آپؐ اُس وقت نہ بشر تھے اور نہ مضغہ اور نہ علق (کیونکہ یہ حالتیں جنین ہونے کے بہت قریب کی ہوتی ہیں اور ہبوط کے وقت جنین ہونے کا اِنتفاء ظاہر ہے اور یہ نزول الی الارض بھی بواسطہ آدم ؑ کے ہے غرض آپ ؐ نہ بشر تھے نہ علقہ نہ مضغہ) بلکہ (صلب آباء میں) محض ایک مادہ مائیہ (نور) تھے کہ وہ مادہ (نور) کشتی (نوح) میں سوارتھا اور حالت یہ تھی کہ نَسربُت اور اُس کے ماننے والوں کے لبوں تک طوفانِ غرق پہنچ رہا تھا ( دلائل النوۃ جلد5ص 260،259 ‘ سیرۃ ابن ہشام جلد1جز4ص145)(اور) وہ مادہ(نور اِسی طرح واسطہ درواسطہ) ایک صُلب سے دوسرے رحم تک نقل ہوتارہا جب ایک طرح کا عالم گزرجاتاتھا دوسرا طبقہ ظاہر(اورشروع) ہوجاتاتھا(یعنی وہ مادہ نور سلسلہ آباء کے مختلف طبقات میں یکے بعد دیگرے منتقل ہوتارہا یہاں تک کہ اِسی سلسلہ میں) آپ نے نارِ نمرود میں بھی وُرُودْ فرمایا چونکہ آپ اُن کی صُلب میں مختفی تھے تو وہ کیسے جلتے (پھر آگے اِسی طرح آپ منتقل ہوتے رہے) یہاں تک کہ آپ کا خاندانی شرف جوکہ (آپ کی فضیلت پر) شاہد ظاہر ہے‘ اَولادِ خندف میں سے ایک ذرہء عالیہ پر جاگزیں ہوا جس کے تحت میں اور حلقے (یعنی دوسرے خاندان مثل درمیانی حلقوں کے) تھے (خندف لقب ہے آپ ؐ کے جدِ بعید مدرکہ بن الیاس کی والدہ کا یعنی اُن کی اَولاد میں سے آپ کے خاندان اور دوسرے خاندانوں میں باہمی وہ نسبت تھی جیسے پہاڑ میں اُوپر کی چوٹی اور نیچے کے درمیانی درجوں میں ہوتی ہے اور نطق یعنی اَوساط کی قید سے اِشارہ اِس طرف ہے کہ غیر اَولاد خندف کو اُن سب کے سامنے بالکل نشیب کی نسبت درجات جبل کے ساتھ ہے) اور آپ ؐ جب پیدا ہوئے تو زمین روشن ہوگئی اور آپ ؐ کے نور سے آفاق منوّر ہوگئے۔ سو ہم اِس ضیاء اور اِس نور میں ہدایت کے راستوں کو قطع کر رہے ہیں‘‘۔
آپؐ کی نورانی پیدائش مبارک دُنیا میں اِنقلابِ عظیم کی بہاریں لے کر آئی۔ جب ابولہب کو لونڈی ثویبہ نے ابولہب کو آپ ؐ کی وِلادت کی خوشخبری سنائی تو اُس نے اپنے بھائی حضرت سیّدنا عبداللہؓ پر اِس عنایت کی خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کردیا۔ اُس وقت دُنیا میں یہ کاروبار عروج پر تھا منڈیاں لگاکرتی غلام اور لونڈیاں بکتے تھے اور لوگ اُنہیں سستے یا مہنگے داموں خرید کر اپنے غلام اور لونڈیاں بنالیتے تھے۔ آپ ؐ کی بے مثل وِلادت با سعادت آزادی کی نوید لے کر آئی۔
زمانۂ جاہلیت میں جن لوگوں کی ولایت وکفالت میں یتیم لڑکیاں ہوتی تھیںاور جولڑکیاں شکل و صورت سے اَچھی سمجھی جاتیں یا اُن کی ملکیت میں جائیداد ہوتی تو اُن کے اَولیاء اَیسا کرتے تھے کہ خود اُن سے نکاح کرتے یا اُن کا اپنی اَولاد سے نکاح کر دیتے تھے جو چاہا کم سے کم حق مَہر مقرر کر دیا اور جس طرح چاہا اُنہیں رکھا‘ کیونکہ وہی اُن کے ولی اور نگران ہوتے تھے۔ اُن کا باپ موجود نہ ہوتا تھا جو اُن کے حقوق کی پوری نگرانی کر سکتا اور اُن کی اَزدواجی زندگی کے ہر پہلو پر نظر رکھ کر فلاح وبہبود کا خود ساختہ اِنتظام کر کے اُن کا نکاح کر دیتا۔
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے‘ فرماتی ہیں‘ عہدِ رسالتِ مآب ؐ میں ایک اَیسا ہی واقعہ پیش آیا کہ ایک شخص کی نگرانی میں ایک یتیم لڑکی تھی‘ جس کے والد کا ایک باغ تھا جس میں یہ لڑکی بھی وارث تھی۔ اُس شخص نے اُس یتیم لڑکی سے خود اَپنا نکاح کر لیا‘ اور بجائے اِس کے کہ اپنے پاس سے حق مَہر وغیرہ دیتا اُس کے باغ کا حصّہ بھی اپنے قبضہ میں لے لیا، اِس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی: ’’اوراگر تمہیں یہ خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں سے خود اَپنا نکاح کرنے میں تم اِنصاف پر قائم نہ رہو گے(بلکہ اُن کی حق تلفی ہو جائے گی) تو تمہارے لئے دوسری عورتیں (بہت ہیں) اُن میں سے جو تمہارے لئے حلال اور پسند ہیں اُن سے نکاح کر لو‘‘۔ (النسآئ:3)
نابالغہ کے نکاح کا مسئلہ:
اِس آیت ِمبارکہ میں یتامیٰ سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں‘ اور اِصطلاحِ شرع میں یتیم اُسی لڑکی یا لڑکے کو کہا جاتا ہے جو اَبھی بالغ نہ ہو‘ اِس لئے اِس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یتیم لڑکی کے ولی کو یہ بھی اِختیار ہے کہ بحا لتِ صغر سنی بلوغ سے پہلے ہی اُس کا نکاح کر دے‘ اَلبتہ لڑکی کی مصلحت اور آئندہ فلاح وبہبود پیشِ نظر رہے‘ اَیسا نہ ہوکہ جیسے بہت سی برادریوں میںرائج ہے کہ بڑی لڑکی کا نکاح چھوٹے بچے سے کر دیا‘ عمروں کا تناسب نہ دیکھا‘ یا لڑکے کے حالات و عادات کا جائزہ نہ لیا ویسے ہی نکاح کر دیا‘ اور بالغ لڑکیاں جن کے باپ مر چکے ہیں‘ اگرچہ بالغ ہو جانے کی بنا پر خود مختار ہیں لیکن لڑکیاں شرم وحیاء کی بناء پر عادۃً بالغہ ہونے کے بعد بھی اَپنے نکاح کے معاملہ میں خود کچھ نہیں بولتیں‘ اَولیاء اور وارث جو کچھ کر دیں اُسی کو قبول کر لیتی ہیں‘ اِس لئے اُن کے اَولیاء پر بھی لازم ہے کہ اُن کی حق تلفی سے پرہیز کریں۔
بہرحال اِس آیتِ مبارکہ میں یتیم لڑکیوں کے اَزدواجی حقوق کی پوری نگہداشت کا حکم مذکور ہے مگر عام حکومتوں کے قانون کی طرح اِس کے نافذ کرنے کی ذمہ داری براہِ راست حکومت پر ڈالنے کی بجائے خود عوام کواللہ تبارک تعالیٰ کے خوف کا حوالہ دے کر حکم دیا گیا کہ اگر تمہیں اِس میں بے اِنصافی کا خطرہ ہو تو پھر یتیم لڑکیوں سے شادی کے خیال کو چھوڑ دو‘ دوسری عورتیں تمہارے لئے بہت ہیں‘ اُن سے نکاح کرو۔
ساتھ ہی ذمہ دارانِ حکومت کا بھی یہ فریضہ ہے کہ اِس کی نگرانی کریں‘ کسی جگہ حق تلفی ہوتی نظر آئے تو بزورِ قانون حقوق اَدا کرائیں۔
ظہورِ اِسلام سے پہلے:
ایک مرد کے لئے متعدد بیبیاں رکھنا‘ظہورِ اِسلام سے پہلے بھی تقریباً تمام مذاہب میں جائز سمجھا جاتا تھا‘ عرب‘ برصغیر پاک وہند‘ اِیران‘ مصراور بابل‘ وغیرہ ممالک کی ہر قوم میں کثرتِ اَزدواج کی رسم جاری تھی اور اِس کی فطری ضرورتوں سے آج بھی کوئی اِنکار نہیں کر سکتا‘ دَورِ حاضر میں یورپ نے اپنے متقدمین کے خلاف تعدّدِ اَزدواج کو ناجائز کرنے کی کوشش کی‘ تو اِس کا نتیجہ بے نکاحی داشتائوں کی صورت میں برآمد ہوا‘ بالآخر فطری قانون غالب آیا‘ اور اَب وہاں کے اہلِ بصیرت حکماء خود اِس کو رواج دینے کے حق میںہیں‘ اِسلام سے پہلے کثرتِ اَزدواج کی رسم بغیر کسی تحدید کے رائج تھی‘ ممالک اور مذاہب کی تاریخ سے جہاں تک معلوم ہوتا ہے کسی مذہب اور کسی قانون نے اِس پر کوئی حد نہ لگائی تھی‘ نہ یہود ونصاریٰ نے نہ ہندوئوں اور آریوں نے اور نہ پارسیوں نے۔
اِسلام کے اِبتدائی زمانے میں یہ رسم بغیر تحدید کے جاری رہی‘ لیکن اِس غیر محدود کثرتِ ازدواج کا نتیجہ یہ تھا کہ لوگ اَوّل اَوّل تو حرص میں بہت سے نکاح کر لیتے تھے‘ مگر پھر اُن کے حقوق اَدا نہ کر سکتے تھے‘ اور یہ عورتیں اُن کے نکاح میں ایک قیدی کی حیثیت سے زندگی گزارتی تھیں۔ پھر جو عورتیں ایک شخص کے نکاح میں ہوتیں اُن میں عدل ومساوات کا کہیں نام ونشان نہ تھا جس سے دلبستگی ہوئی اُس کو نوازا گیا‘ جس سے رُخ پھر گیا اُس کے کسی حق کی پرواہ نہ کی۔ اِسلام نے تعدّدِ ازدواج پر ضروری پابندی لگائی اور عدل ومساوات کا قانون جاری کیا۔
قرآنِ مجید نے عام معاشرہ کے اِس ظلم عظیم کو روکا‘ تعدّد اَزدواج پر پابندی لگائی‘ اور چار سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام قرار دیا‘ اور جو عورتیں ایک ہی وقت میں نکاح کے اَندر ہیں‘ اُن میں مساواتِ حقوق کا نہایت تاکیدی حکم فرمایا اور اِس کی خلاف ورزی پر وعید ِشدید سنائی۔ مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اِرشادِ عظیم ہوا: ’’جو حلال عورتیں تمہیں پسند ہوں اُن سے نکاح کر سکتے ہو‘ دو دو‘ تین تین‘ چار چار‘‘۔ (النسآئ:3)
آیت ِمبارکہ میں مَا طَابَ کا لفظ آیا ہے حضرت حسن بصری‘ حضرت ابن جبیر اور ابن مالک نے مَا طَابَ کی یہ تفسیر فرمائی ہے‘ یعنی ’’جو عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں‘‘۔
اور بعض حضرات نے مَا طَابَ کے لفظی معنی کے اِعتبار سے پسندیدہ کا ترجمہ کیا ہے‘ مگر اِن دونوں میں کوئی تضاد نہیں‘ یہ مراد ہو سکتی ہے کہ جو عورتیں طبعی طور پر تمہیں پسند ہوں اور تمہارے لئے شرعاً حلال بھی ہوں۔
اِس آیت ِمبارکہ میں ایک طرف اِس کی اِجازت دی گئی کہ ایک سے زائد دو‘ تین ‘ چار‘ عورتیں نکاح میں جمع کر سکتے ہیں‘ دوسری طرف چار کے عددتک پہنچا کر یہ پابندی عائد کر دی کہ چار سے زائد عورتیں بیک وقت نکاح میں جمع نہیں کی جا سکتیں۔
خاتم النبیین حضور سیّدنا رسول اللہ ؐ کے بیان نے اِس قرآنی تخصیص اور پابندی کو اور زیادہ واضح کر دیا‘ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ حضرت غیلان بن سلمہ ثقفی ؓ اِسلام لائے دَورِ جاہلیت میں اُن کی دس بیویاں تھیں اِمام الانبیاء حضور سیّدنا رسول اللہ ؐنے اُنہیں فرمایا: ’’چار بیویوں کو اپنے پاس رکھو اور باقی عورتوںکو جدا کردو‘‘۔ (شرح السنۃ جلد5 ص70‘مسند شافعی جلد2 ص16 حدیث نمبر43‘) یعنی طلاق دے دو۔
حضرت سیّدنا قیس بن الحارث اسدی ؓ فرماتے ہیں کہ میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں‘ میں نے ختم المرسلین حضور سیّدنا رسول اللہ ؐ سے ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’ اُن میں سے چار رکھ لو باقی کو طلاق دے دو‘‘۔ (ابوداؤد حدیث نمبر2241‘ ابن ماجہ حدیث نمبر1952)
اور مسند اِمام شافعی علیہ الرحمہ میں حضرت سیّدنا نوفل بن معاویہ ؓ دیلمی کا واقعہ نقل کیا ہے‘ آپ فرماتے ہیں‘ جب میںمسلمان ہوا تومیرے نکاح میں پانچ عورتیں تھیں‘ میں نے خاتم المرسلین حضور سیّدنا رسول اللہ ؐ سے دریافت کیاتو آپ ؐ نے فرمایا : ’’ایک کو جدا کر دو (یعنی طلاق دے دو)اور چار رکھ لو‘‘۔(مشکوٰۃ حدیث نمبر3177) چنانچہ میں نے اُن میں سے قدیم صحبت والی ساٹھ سالہ بانجھ کا اِرادہ کیا اور اُسے جدا کردیا۔ختم الانبیاء حضور سیّدنا رسول اللہ ؐ نے اُنہیں ایک عورت کو طلاق دینے کا حکم فرمایا۔ سیّد المرسلین حضور سیّدنا رسول اللہؐ اور صحابہ کرام ؓ کے اِس تعامل سے آیتِ قرآنی کی مراد بالکل واضح ہو گئی کہ چار سے زائد عورتوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔
حضور سیّدنا رحمۃ للعالمین ؐ کے لئے تعدّدِ اَزدواج:
سیّد الکونین حضور سیّدنا رسول اللہؐ کی ذات والا صفات سراپا رحمت وبرکت ہے‘ تبلیغِ اَحکام اور تزکیۂ نفوس اور ابلاغِ قرآنِ پاک آپ ؐ کا سب سے بڑا مقصدِ بعثت تھا۔ آپ ؐ نے اِسلام کی تعلیمات کو قولاً وعملاً دُنیا میں پھیلا دیا‘ یعنی آپؐ بتاتے بھی تھے اور کرتے بھی تھے‘ چونکہ اِنسانی زندگی کا کوئی شعبہ اَیسا نہیں ہے جس میں سرورِ کونین حضور سیّدنا رسول اللہؐ کی رہبری کی ضرورت نہ ہو‘ نماز باجماعت سے لے کر بیویوں کے تعلقات‘ آلِ واَولاد کی پرورش سے لے کر طہارت تک کے بارے میں آپ ؐ کی قولی اور فعلی ہدایات سے کتب ِحدیث بھر پور ہیں۔ گھر میںکیا کیا کام کیا‘ بیویوں سے کیسے میل جول رکھا‘ اور گھر میں آکر مسائل پوچھنے والی خواتین کو کیا کیا جوابات اِرشاد فرماتے؟ اِس طرح کے سینکڑوں مسائل ہیںجن سے اَزواج مطہراتؓ کے ذریعہ ہی اُمّت کو رہنمائی ملی ہے‘ تعلیم وتبلیغ کی دینی ضرورت کے پیشِ نظر حضورِ اقدسؐ کے لئے کثرتِ اَزدواج ایک ضروری اَمر تھا۔ صرف اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے اَحکام ومسائل‘ اَخلاق وآداب اور سیرت نبویؐ سے متعلق دو ہزار دو سو دس (2210)روایات مروی ہیں جو کتبِ حدیث میں پائی جاتی ہیں‘ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ اُمّ سلمہ ؓ کی مرویات کی تعداد تین سو اَٹہتر (378) تک پہنچی ہوئی ہے۔
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کا روایت ودرایت اور فقہ وفتاویٰ میں جو مرتبہ ہے وہ محتاجِ بیان نہیں‘ اُن کے شاگردوں کی تعداد دو سو کے لگ بھگ ہے نبی الحرمین حضور سیّدنا رسول اللہ ؐ کی وفات کے بعد مسلسل اَڑتالیس سال تک علم دین پھیلایا۔
آپ ؐ کی معصوم زندگی قریشِ مکہ کے سامنے اِس طرح گزری کہ پچیس سال کی عمر میں ایک سن رسیدہ بیوہ (جس کے دو شوہر فوت ہو چکے تھے) سے نکاح فرما کے عمرکے پچیس سال تک اُنہی کے ساتھ وقت گزارا۔ وہ بھی اِس طرح کہ مہینہ مہینہ گھر چھوڑ کر غارِ حرا میں مشغولِ عبادت رہتے تھے۔ دوسرے نکاح جتنے ہوئے پچاس سالہ عمر شریف کے بعد ہوئے ۔یہ پچاس سالہ زندگی اور عنفوانِ شباب کا سارا وقت اہلِ مکہ کی نظروں کے سامنے تھا‘ کبھی کسی دشمن کو بھی رحمۃ للعالمین حضور سیّدنا رسول اللہؐ کی طرف کوئی اَیسی چیز منسوب کرنے کا موقع نہیں ملا جو تقویٰ و طہارت کو مشکوک کر سکے۔ آپ ؐ کے دشمنوں نے آپؐ پر ساحر‘ شاعر‘ مجنون اور کاہن جیسے الزامات میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی‘ لیکن آپؐ کی معصوم زندگی پر کوئی اَیسا حرف کہنے کی جرأت نہیں ہوئی جس کا تعلق جنسی اور نفسانی جذبات کی بے راہ روی سے ہو۔
پچیس سال کی عمر سے لے کر پچاس سال کی عمر شریف ہونے تک تنہا اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ آپؐ کی زوجہ مطہرہ رہیں‘ اُن کی وفات کے بعد اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ سودہ ؓ اور اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہؓ سے نکاح ہوا‘ مگر اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ سودہؓ تو آپ ؐکے گھر تشریف لے آئیں اور اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ ؓکی رخصتی عمل میں آئی۔ اُس وقت آپ ؐ کی عمر 54 سال ہو چکی تھی اور دو بیویاں اِس عمر میں آکر جمع ہوئی ہیں‘ یہاں سے تعدّدِ اَزدواج کا معاملہ شروع ہوا‘ اِس کے ایک سال بعد اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ حفصہؓ سے نکاح ہوا‘ پھر کچھ ماہ بعد اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ ز ینب بنتِ خزیمہؓ سے نکاح ہوا‘ اور صرف اَٹھارہ ماہ آپؐ کے نکاح میں رہ کر وفات پائی‘ ایک قول کے مطابق تین ماہ آپ ؐ کے نکاح میں زندہ رہیں‘ پھر 4ھ میں اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ اُمّ سلمہ ؓسے نکاح ہوا‘ پھر 5ھ میں اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ زینب بنت جحش ؓ سے نکاح ہوا‘ اُس وقت آپ ؐ کی عمر شریف 58 سال ہو چکی تھی‘ (اور اِتنی بڑی عمر میں آکر چار بیویاں جمع ہوئیں‘ حالانکہ اُمّت کو جس وقت چار بیویوں کی اِجازت ملی تھی۔ اُس وقت ہی آپ ؐ کم از کم چار نکاح کر سکتے تھے لیکن آپؐ نے اَیسا نہیں کیا)۔ اِن کے بعد 6ھ میں اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ جویریہ ؓسے‘ اور 7ھ میں اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ اُمّ حبیبہؓ سے اور پھر 7ھ میں اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ صفیہؓ سے پھر اِسی سال اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ میمونہ ؓ سے نکاح ہوا۔
خلاصہ:
یہ کہ 50 سال کی عمر تک آپؐ نے صرف ایک زوجہ مطہرہ ؓ کے ساتھ زندگی گزاری۔ پچاس سال کی عمر تک اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ کے ساتھ اور چار پانچ سال اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ سودہ ؓکے ساتھ گزارے۔ پھر 58 سال کی عمر میں چار بیویاں جمع ہوئیں‘ اور باقی اَزواجِ مطہرات ؓ دو تین سال کے اَندر حرمِ نبوت میں آئیں۔ یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ اِن سب بیویوں میں صرف ایک ایسی تھیں جن سے کنوارے پن میں نکاح ہوا‘ یعنی اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ‘ اور ایک مطلقہ تھیں یعنی اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ زینب بنت جحشؓ اِن کے علاوہ باقی سب اَزواجِ مطہراتؓ بیوہ تھیں‘ جن میں بعض کے دو دو شوہر پہلے گزر چکے تھے‘ اور یہ تعداد بھی آخر عمر میں آکر جمع ہوئی ہے۔
حضرات صحابہ کرام ؓ مرد اور عورت سب آپ ؐپر جاں نثار تھے‘ اگر آپ چاہتے تو سب بیویاں کنواریں جمع کر لیتے‘ لیکن آپ ؐ نے اَیسانہیں کیا۔
نیز یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سرکارِ کائنات حضور سیّدنا رسول اللہؐ اللہ تبارک وتعالیٰ جَلَّ جَلالہٗ کے برحق نبی ؐ ہیں‘ نبی صاحبِ ہَوا و ہوَس نہیں ہوتے‘ جو معاملاتِ طیبات کرتے رہے اِذنِ الٰہی سے کرتے رہے‘ نبی کو نبی ماننے کے بعد ہر جہت سے اِحترام ہی اِحترام ہے۔
تعدّدِ ازدواج کی وجہ سے تعلیمی اور تبلیغی فوائد جو اُمّت کو حاصل ہوئے اور جو اَحکام اُمّت تک پہنچے‘۔ اُن کی جزئیات اِس قدر کثیر ہیں کہ اُن کا اِحصار دشوار ہے‘ کتبِ اَحادیثِ مبارکہ اِس پر شاہد ہیں‘ اَلبتہ بعض دیگر فوائد کی طرف یہاں ہم اِشارہ کرتے ہیں۔
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ اُمّ سلمہ ؓ کے شوہر حضرت ابو سلمہؓ کی وفات کے بعد آپ ؐنے اُن سے نکاح کر لیا تھا۔ وہ اپنے سابق شوہر کے بچوں کے ساتھ آپ ؐ کے گھر تشریف لائیں‘ اُن کے بچوں کی آپؐ نے پرورش فرمائی‘ اور اپنے عمل سے بتا دیا کہ کس پیارو محبت سے سوتیلی اَولاد کی پرورش کرنی چاہئے۔ آپؐ کی بیویوں میں صرف یہی ایک بیوی ہیں جو بچوں کے ساتھ آئیں‘ اگر کوئی بھی بیوی اِس طرح کی نہ ہوتی تو عملی طور پر سوتیلی اَولاد کی پرورش کا پہلو چھپا رہتا اور اُمّت کو اِس سلسلے میں کوئی ہدایت نہ ملتی‘ اُن کے بیٹے حضرت سیّدنا عمر بن ابی سلمہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں سیّد الثقلین حضور سیّدنا رسول اللہ ؐ کی گود میں پرورش پاتا تھا‘ ایک بار آپؐ کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے پیالے میں ہر جگہ ہاتھ ڈالتا رہا‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ (تبارک وتعالیٰ) کا نام لے کر کھا‘ داہنے ہاتھ سے کھا اور سامنے سے کھا‘‘۔ ( مشکوٰۃ حدیث نمبر4159)
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ جویریہؓ ایک جہاد میں قید ہو کر آئی تھیں۔ جو آپ ؐ کے نکاح میں آئیں‘ اِن کی قوم کے سینکڑوں اَفراد حضرات صحابہ کرام ؓ کی ملکیت میں آ چکے تھے‘ کیونکہ وہ سب لوگ قیدی ہو کر آئے تھے‘ جب صحابہ کرامؓ کو پتا چلا کہ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپؐ کے نکاح میں آگئی ہیں تو سیّد الانبیاء حضور سیّدنا رسول اللہؐ کے اِحترام کے پیشِ نظر سب نے اپنے اپنے غلام باندی آزاد کر دئیے۔
سبحان اللہ! حضرات صحابہ کرام ؓ کے اَندازِ اَدب کی کیا شان تھی‘ اِس جذبے کے پیشِ نظر کہ یہ لوگ سرکارِ کائنات حضور سیّدنا رسول اللہ ؐ کے سسرال والے ہو گئے‘ اِن کو غلام بنا کر کیسے رکھیں؟ سب کو آزاد کر دیا‘ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ ؓ اِس واقعہ کے متعلق فرماتی ہیں۔
’’(نبی آخر الزماں حضور سیّدنا) رسول اللہؐ کے حضرت جویریہ ؓ سے نکاح کر لینے سے بنو المصطلق کے سو گھرانے آزاد ہوئے میں نے کوئی عورت اَیسی نہیں دیکھی جو اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ جویریہ ؓ سے بڑھ کر اپنی قوم کے لئے بڑی برکت والی ثابت ہوئی ہو‘‘۔
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ اُمّ حبیبہؓ نے اپنے شوہر کے ساتھ اِبتداء اِسلام ہی میں مکہ مکرمہ میں اِسلام قبول کیا تھا‘اور پھر دونوں میاں بیوی ہجرت کر کے قافلہ کے دوسرے اَفراد کے ساتھ حبشہ چلے گئے تھے‘ وہاں اُن کا شوہر نصرانی ہوگیا‘ اور چند دن کے بعد مر گیا‘ سیّدِ عرب و عجم حضور سیّدنا رسول اللہ ؐ نے شاہ نجاشیؓ کے واسطہ سے اُن کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا‘ جسے اُنہوں نے قبول کر لیا‘ اور وہیں حبشہ میں شاہِ نجاشیؓ نے ابو القاسم حضور سیّدنا رسول اللہ ؐ کے ساتھ اُن کا نکاح کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ اُمّ حبیبہؓ ابو سفیان کی صاحبزادی تھیں۔ اور ابو سفیان اُس وقت اُس گروہ کے سرخیل تھے جس نے اِسلام دشمنی کو اپنا سب سے بڑا مقصد قرار دیا تھا‘ اور وہ مسلمانوں اور خاتم النبیین حضور سیّدنا رسول اللہ ؐ کو اَذیت دینے اور نعوذ باللہ اُنہیں ختم کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے‘ جب اُن کو اِس نکاح کی اِطلاع ہوئی تو بلا اِختیار اُن کی زبان سے یہ اَلفاظ نکلے: ’’یعنی محمد ؐ جواں مرد ہیں اُن کی ناک نہیں کاٹی جا سکتی‘‘۔ مطلب یہ کہ وہ بلند ناک والے معزّز ہیں اُن کی عزّت کو نقصان پہنچانا آسان نہیں‘ اِدھر تو ہم اُن کونقصان پہنچانے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں اور اُدھر ہماری لڑکی اُن کے نکاح میں چلی گئی۔
غرض اِس نکاح نے ایک نفسیاتی جنگ کا اَثر کیا‘ اور اِسلام کے مقابلہ میں کفر کے قائد کے حوصلے پست ہو گئے۔ اِس نکاح کی وجہ سے جو سیاسی فائدہ اِسلام اور مسلمانوں کو پہنچا اُس کی اَہمیت اور ضرورت سے اِنکار نہیں کیا جاسکتا اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کے مدبّر اور حکیم رسولِ کریم ؐ نے اِس فائدہ کو ضرور پیشِ نظر رکھا ہو گا۔
ہماری پیاری ماؤں پیاری بہنوں کو امام الانبیاء حضور سیّدنا رحمۃ للعالمین خاتم النبیین کی پاکیزہ زندگی مبارک کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ رہنمائی کے لئے چند کتابوں کے نام لکھے جاتے ہیں جو جامع مسجد نگینہ میں ہونے والے ہفتہ وار تعلیمی و تربیتی اجتماع میں جہاں سینکڑوں پیاری مائیں بہنیں شرکت کرتی ہیں ‘ اس موقع پر کتابوں کا اسٹال لگتاہے وہاں سے خریدی جاسکتی ہیں۔
(1)سیرتِ رسول عربی تالیف حضرت نور بخش توکلی ۔ (2)مدارج النبوۃ شیخ محقق حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ۔ فی الحال ان دوکتابوں کو حاصل کریں اور اپنے مطالعہ میں رکھیں ان شاء اللہ العزیز دل نور محبت رحمۃ للعالمین جگمگائے گا۔