25 سال سے برطانیہ میں مقیم مُتّحِدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین سنجیدہ ماحول میں بھی مزاحیہ پارٹ/ گفتگو کرنے سے پرہیز نہیں کرتے۔ اُن کا تکیہ کلام ”اوئے جاگیردارا!“ کئی پنجابی فلموں میں ہیرو کا پارٹی ادا کرنے والوں کا ہوتا ہے۔ الطاف بھائی اپنی تقریروں میں فلمی گِیت گا کر بھی اپنے عقیدت مندوں کا دِل خوش کرتے ہیں۔ ہمارے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو دُنیا کا بہادر جرنیل قرار دیتے ہُوئے جناب الطاف حسین نے کہا کہ ”اگر جنرل راحیل شریف کسی فلم میں ہوتے تو ”ہِیرو“ ہوتے۔“ الطاف بھائی! فلمی ہِیرو اصل میں ہِیرو نہیں ہوتا۔ وہ تو ہِیرو کا پارٹ ادا کررہا ہوتا ہے۔ جنرل راحیل تو پاکستان کے حقیقی ہِیرو ہیں۔ فرض کِیا آپ کی خواہش کے مطابق جنرل راحیل آپریشن ”ضرب العضب“ کی مکمل کامیابی کے بعد ہِیرو کا پارٹ ادا کرنے پر رضا مند بھی ہو جائیں تو کیا اُس فلم میں سنجیدہ اور مزاحیہ گانے آپ گائیں گے؟
لال مسجد کو ڈھانے کا مطالبہ!
الطاف بھائی نے مطالبہ کِیا کہ ”لال مسجد کے مولوی عبدالعزیز کو گرفتار کِیا جائے۔ جامعہ حفصہ کو فی اِلفور بند کر دِیا جائے اور منافقِین کی آماجگاہ لال مسجد کو ڈھا دِیا جائے یا جلا دِیا جائے۔ جِس طرح نبی کریم نے غزوہ¿ تبُوک سے واپسی کے بعد منافقِین کی ”مسجدِ ضرار“ کو گرا دِیا تھا۔“ الطاف صاحب کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ لال مسجد مولوی عبداُلعزیز کے والد مولوی محمد عبداللہ کی جاگیر نہیں ہے۔ لال مسجد وفاقی حکومت کی ملکیت ہے۔ مولوی محمد عبداللہ اِس مسجد میں خطِیب کی حیثیت سے سرکاری ملازم تھے جنہیں کسی نے قتل کر دِیا تھا۔ حکومت نے اُن کے قتل کے بعد مولوی عبدالعزیز کو خطِیب اور اُن کے چھوٹے بھائی غازی عبدالرشید کو نائب خطِیب ملازم رکھ لِیا تھا۔
یہ درست ہے کہ مولوی عبدالعزیز اور اُن کے مقتول بھائی نے لال مسجد کو ”منافقِین اور ریاست پاکستان کے غدّار دہشت گردوں کا اڈّہ بنا دِیا تھا/ ہے لیکن لال مسجد تو قومی خزانے سے بنائی گئی ہے۔ مولوی عبدالعزیز نے مسجد سے ملحقہ زمین پر قبضہ کر کے اُس پر جامعہ حفصہ بنوا کر اُس کی پرنسپل ماجدہ یونس المعرُوف اُمّ ِ حسّان کو بنا دِیا تھا جہاں سے دہشت گرد طالبات کے جتھے تیار کئے جاتے تھے/ ہیں۔ کیوں نہ جامعہ حفصہ کو قومی ملکیت قرار دے کر اُس میں لائبریری قائم کردی جائے اور لال مسجد میں کسی مُحب ِ وطن عالم دِین کو خطِیب مقرر کر دِیا جائے؟
جنرل (ر) پرویز مشرف بے قصور!
لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں مرد اور خواتین مسلح دہشت گرد جمع کر کے سرکاری ملازم مولوی عبدالعزیز نے 6 اپریل 2007 ءکو خود ”امیر المومنین“ اور غازی عبدالرشید کو ”نائب امیرالمومنین“ مقرر کر کے پُورے مُلک میں ”شریعت کا نفاذ“ اور لال مسجد میں ”شرعی عدالت“ قائم کر کے وفاقی حکومت کو دھمکی دی تھی کہ ”اگر اُس نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طلبہ اور طالبات کے خلاف آپریشن کِیا تو پُورے مُلک میں خُودکش حملے ہوں گے“ اور جب پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے آپریشن کر کے 113 دہشت گردوں کو قتل کر دِیا تو مقدمہ ریاست کے باغی مولوی عبدالعزیز کے خلاف چلنا چاہیے تھا لیکن اِس کے بجائے صدر جنرل پرویز مشرف اور دوسرے حکومتی ارکان کو ملزم ٹھہرایا گیا۔ دراصل اُس وقت بعض جج صاحبان بھی دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کے دباﺅ میں تھے۔ مَیں نے اپنے کالموں میں کئی بار ”جنرل (ر) پرویز مشرف بے قصور!“ لِکھا۔ سوال یہ کہ اِس وقت (پارلیمانی پارٹیوں کے تعاون سے) وزیرِاعظم نواز شریف اور کور کمانڈروں کی مشاورت سے جنرل راحیل شریف ¾ اسلام اور پاکستان کے دُشمنوں کے خلاف جو کارروائی کر رہے ہیں تو کیا کل کلاں ریاستِ پاکستان کے باغی اور دہشت گرد اِن کے خلاف مقدمہ کر سکیں گے؟
مولانا سمیع الحق کا ”اعلانِ حق؟“
”طالبان کا باپ“ کہلانے والے جمعیت عُلماءاسلام ( س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے سانحہ¿ پشاور کو ”سفّاکانہ“ قرار دیتے ہُوئے کہا ہے کہ ”مغربی مِیڈیا ¾ طالبان سے میرے تعلق کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ میرا تحریک طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان کی دہشت گردی سے۔“ شاعر نے کہا تھا کہ....
”بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے؟“
یہاں تو مولانا فضل اُلرحمن کے بعد مولانا سمیع اُلحق نے بھی رنگ بدل لِیا ہے۔ طالبان اور دہشت گردوں کے دوسرے گروہ مولانا سمیع الحق کی سرپرستی/ نگرانی میں قائم ہونے والے مدرسوں کی پیداوار ہیں۔ مولانا سمیع اُلحق ”طالبان کا باپ“ کہلاتے ہیں۔15 فروری کو لاہور میں اپنی صدارت میں منعقدہ کانفرنس میں مولانا سمیع الحق 32 مذہبی جماعتوں کے سربراہوں اور 200 سے زیادہ ”جیّد“ عُلماءو مشائخ سے طالبان کو ”پاکستان کے بیٹے“ تسلیم کرا لِیا تھا۔ یہ سب ”باشریعت“ طالبان سے لاتعلقی کا اظہار کب کریں گے؟ مولانا سمیع الحق کا طالبان سے لاتعلقی کا تازہ ترین ”عاق نامہ ہے یا ”اعلانِ حق؟“
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024