دہشت گردوں کا پاکستان کے مستقبل پر حملہ
پشاور آرمی پبلک سکول میں شہید کئے جانیوالے معصوم بچے ہمارا مستقبل ہی تو تھے جنہیں دہشت گردوں نے 16 دسمبر کو نشانہ بنایا۔ اس ہولناک سانحہ پر پورا ملک ابھی تک سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ سب حیران ہیں کہ معصوم بچوں کا کیا قصور تھا جنہیں جانور نما انسانوں نے درندگی کا نشانہ بنایا‘ وہ معصوم بچے نہیں جانتے تھے کہ دہشتگردی کیا ہوتی ہے۔ دہشت گردوں کے مقاصد کیا ہیں؟ ملکی و بین الاقوامی سیاست کیا ہوتی ہے۔ تعلقات اور مفادات کیا ہوتے ہیں۔ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ہمارا ملک گزشتہ دس برسوں سے حالت جنگ میں ہے۔ ایسی جنگ جو سرحدوں پر نہیں بلکہ ہمارے شہروں‘ گلی محلوں اور بازاروں میں لڑی جا رہی ہے۔ جس میں دکھائی نہ دینے والا دشمن کہیں کھیل کے میدانوں کو نشانہ بناتا ہے، کہیں عبادت گاہوں کو تو کہیں بازار میں خریداری کرنے والوں کو۔ معصوم بچوں کی لاعلمی کا کیا کہیے یہاں تو ملک کے باشعور بڑوں تک کومعلوم نہیں کہ پاکستان میں ہمارے پیارے وطن میں Fourth generation war برپا کرنے والے کون ہیں اور اس جنگ کے مسلط کرنے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟ صحافی تقسیم ہیں‘ دانشور تقسیم ہیں‘ سول سوسائٹی یہاں تک کہ ہمارے سیاستدان و لیڈران تک تقسیم ہیں۔ کوئی اسے ملکی اختلافات کی فسادات تک پہنچی ہوئی شکل قرار دےکر جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی اسے سوویت یونین کےخلاف افغان مجاہدین کی مدد کیلئے پاک فوج کی طرف سے اختیار کی گئی حکمت عملی قرار دے کر فوج کےخلاف جذبات کا اظہار کرتا ہے تو کوئی مذہب بیزار طبقات اسے مذہبی انتہا پسندی کا شاخسانہ قرار دے کر اپنے نظریات کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی اس حقیقت کا کھل کر اظہار کرنے کو تیار نہیں کہ ہمارا دیرینہ دشمن بھارت اور اسکے خفیہ ادارے پاکستان میں برپا دہشت گردی کی جنگ کے سرخیل اور ماسٹر مائنڈ ہیں۔ پشاور میں سکول کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے پریس کانفرنس میں ملک کا نام لئے بغیر بتا دیا تھا کہ دہشت گردوں کو کون کہاں سے ہدایت دے رہا تھا۔ پتہ چل چکا ہے‘ ویسے بھی جب ٹی ٹی پی نے حملہ کی ذمہ داری قبول کی تو لوگوں نے سوچنا شروع کر دیا تھا کہ ٹی ٹی پی کی قیادت تو افغان صوبے کنٹر میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ تاہم حملے کے دوسرے روز پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا ڈی جی آئی ایس آئی کو ہمراہ لے کر کابل جانا وہاں افغان صدر اور ”سیاف“ کے کمانڈر سے فوری ملاقاتوں کے بعد وطن واپسی کے عمل نے ثابت کر دیا تھا کہ فوج اب مزید نقصان کیلئے تیار نہیں اور قوم کیلئے اس سے بڑھ کر سانحہ ہو بھی کیا سکتا ہے۔ 132 بچے بے دردی سے شہید کر دئیے گئے۔ سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی کو بچوں کے سامنے آگ لگا کر زندہ جلا دیا گیا۔ بہت سے بچوں کو قریب سے گولی مارنے سے پہلے ان کی آنکھیں نکال لی گئیں۔ سکول ٹیچر بینش پرویز کے سامنے انکی دو کم سن طالبات بیٹیوں کو شہید کرنے کے بعد انہیں بھی شہید کر دیا گیا حالانکہ وہ تو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تڑپتا دیکھ کر پہلے ہی جیتے جی مر چکی تھیں۔ ویسے بھی 9 سال سے لے کر 16 سال تک کے شہید ہونیوالے پھول جیسے بچوں کے ماں باپ اور دیگر گھر والوں پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ دنیا چاہے کتنی بھی مذمت کر لے اس کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ ہاں تدارک ہو سکتا ہے۔ وہ بھی اسی صورت اگر پوری قوم دہشت گرد ہی نہیں انکے سرپرستوں کےخلاف اٹھ کھڑی ہو اور طے کر لے کہ اب پاکستان کےخلاف مزید دہشت گردی و جارحیت برداشت نہیں کی جائےگی اور ملک کی برسر اقتدار و اپوزیشن جماعتوں نے اپنے تمام اختلافات پس پشت ڈال کر مل بیٹھنے کےلئے جس قدر فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے اور سزائے موت کے منتظر دہشتگردوں کی سزا¶ں پر عمل درآمد کےلئے اجتماعی سوچ و جذبے کا مظاہرہ کیا ہے یہ جذبہ قابل تحسین ہے جو آئندہ بھی جاری رہنا چاہئے اور اسی جذبے کے تحت ہی ہمارے لیڈر افغان مہاجرین کو فوری واپس بھیجنے کا بھی فیصلہ دیں کیونکہ اس مہمان نوازی کی پاکستان اب تک بہت بھاری قیمت ادا کر چکا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کیلئے یہ اقدام ضروری ہے۔
یہ جنگ جیتنے کےلئے اس حقیقت کا ادراک بے حد ضروری ہے کہ ملک حالت جنگ میں ہے اور ملک کا موجودہ نظام عدل اس قابل نہیں کہ درندہ نما دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچا سکے۔ ابھی تک فوج تنہا یہ جنگ لڑ رہی ہے۔ گو قوم اپنی افواج کےساتھ ہے جس کا ثبوت ضرب عضب آپریشن سے قبل شمالی وزیرستان سے 12 لاکھ نفوس کا انخلا ہے جنہوں نے قومی مفاد و سلامتی کے پیش نظر اپنا گھر اور مال و اسباب سب چھوڑ کر خیموں و کیمپوں میں رہنا قبول کر لیا۔ انکی اس قربانی ہی کی وجہ سے آپریشن کامیابی سے تکمیل کی طرف گامزن ہے۔ شمالی وزیرستان کے علاوہ بھی دیگر ایجنسیوں میں آپریشن جاری ہے۔ امید ہے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے باقی ماندہ ٹھکانوں کی مکمل تباہی کے بعد جلد ہی متاثرین کی واپسی و بحالی کا عمل شروع ہو جائے گا لیکن جب تک افغانستان میں ملا فضل اﷲ اور اسکے ساتھیوں کو افغان خفیہ اداروں کے علاوہ بھارتی سفارت خانے و درجن بھر قونصل خانوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کو کارروائی سے روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ بھارت کی طرف سے افغانستان میں گھٹتے ہوئے کردار پر مایوسی اور پاکستان و افغانستان کے مابین اچھے تعلقات کو ابتدا ہی میں خراب کرنے کےلئے بھارتی خفیہ اداروں کی طرف سے دہشتگردوں کے نئے گروپ تشکیل دینے و دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے کی جانےوالی منصوبہ بندیوں سے متعلق خبریں ”نوائے وقت“ شائع کر چکا ہے۔ بھارتی کردار کو دنیا کے سامنے لانے کےلئے ضروری ہے کہ پاکستان کی حکومت تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک پارلیمانی گروپ تشکیل دے جو تمام قابل ذکر ممالک کا دورہ کر کے انہیں صورتحال سے آگاہ کرے۔ انہیں بتائے کہ بھارت خطے میں جارحانہ عزائم رکھتا ہے۔