1 کے بعد سے وطن عزیز میں امن ناپید ہو کر رہ گیا ہے ایسا معلوم ہونے لگا ہے کہ دہشت گردی صرف پاکستان ہی کا ایشو ہے حالانکہ سر زمین پاکستان کا امن خطے کے امن بلکہ دنیا کے امن کے لئے ازحد ضروری ہے چیف آف دی آرمی سٹاف آف پاکستان جنرل راحیل شریف کی امریکی چیف کمانڈر سے ملاقات میں پاکستان کی سٹریٹجیکل سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لئے مکمل تعاون پر بات ہوئی مگر حالیہ بدترین دہشت گردی جو پاکستان میں ہو چکی ہے اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وطن عزیز میں دہشت گردی کے محرکات کی بیخ کنی کےلئے عملی اقدامات لینے کا درد سر صرف پاک آرمی کا رہ گیا ہے اور عالمی طاقتیں جن کی جانب سے اس جنگ کا آغاز ہوا ان کی رفاقت و تعاون کے حصول کا کوئی عملی مجرب نسخہ نہیں ہے۔ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف یہ طویل جنگ اس وقت اپنی طوالت، کربناکی اور جانی و مالی نقصان میں تاریخ انسانی کی اپنی مثال آپ بن چکی ہے۔ دنیا میں عداوتیں، جنگیں، رسہ کشی و کشمکش کی کیفیتیں چلتی رہتی ہیں۔ جنگ عظیم اول، جنگ عظیم دوم، تاتاریوں، مغربی یورپ، ہٹلر، نپولین وغیرہ کی سب جنگیں علاقائی و جغرافیائی فتوحات کی جنگیں تھیں۔ مدمقابل، ہم پلہ رقابت کی جنگیں تھیں تو ان جنگوں کے اسباب نقصان کی بھی منطق تھی مگر سرزمین وطن کو تاریخ انسانی میں پہلی بار وار آف ڈسٹرکشن میں جھونک دیا گیا۔ کسی ریاست کے اندر کسی مسلح گروپ کی ریاست کا ایک نرالا تصور پیدا کیا گیا.... انسانی جنگوں میں ایتھکس کا لحاظ ہوتا رہا مگر یہ کیسی جنگ ہے کہ یہاں اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنے والے وحشی درندے بے گناہ معصوم پھولوں کو مسل رہے ہیں۔ ہماری عبادت گاہیں، امام بارگاہیں، مذہبی اجتماعات، چیک پوسٹیں، پبلک ہیلتھ سیکٹرز، گلیاں بازار و درسگاہیں نشانے پر رہتے ہیں، افواج پاکستان کے اداروں سٹریٹجک وار مشینری پر بارہا حملے ہو چکے پاکستان کو ہی حالت جنگ میں پھنسایا جاتا ہے۔ پاکستان کو اس حالت تک پہنچانے والوں کا مقصد وطن پاک کو غیر مستحکم و غیر محفوظ کرنا اور پوری دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے تو یہ وہی بیرونی دشمن ہے جسے ازل سے وجود پاکستان نہیں بھایا اور اسے پاکستان کے امن کی تباہی میں اپنی ملوکیت کا ستارہ چمکتا نظر آتا ہے۔ سال 2014ءکے اختتام پر آرمی پبلک سکول پشاور میں بربریت و دہشت کی جو داستان رقم ہوئی ایسی داستان ظلم فلسطین، مقبوضہ کشمیر و عراق میں بھی نہیں ملتی۔ 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور کا مسرور کن احاطہ قتل گاہ بن گیا وہ ممتا کہ جس کا احترام ہر مہذب قوم، ہر گروہ نے کیا اسی ممتا کا خون ہوا، میٹھی لوریاں دینے والی ماﺅں کی ممتا کو تڑپایا گیا۔ ماﺅں کے لاڈلوں، قوم کے مستقبل کے معماروں کے خون سے مدرسے کے سرخ فرش نے پورے عالم کے ہر ذی ہوش کو اشکبار کر دیا۔ قوم پاک آرمی کے دم قدم ہے اور فیصلہ ہو گیا ہے کہ اب سیاست کا نہیں، شرافت کا نہیں، صبر کا نہیں، برداشت کا نہیں اس اندوہناک و کربناک دہشت گردی سے وطن عزیز کی سرزمین کو پاک و صاف کر دینے کا وقت ہے۔ آرمی چیف کا دورہ افغانستان، حکومتی اے پی سی دھرنا ختم کرنے کا اعلان اور عمران خان کا ملک میں دہشت گردی کے ایشو پر سیریس کنسرن ظاہر کر رہے ہیں۔آرمی چیف نے افغان صدر اشرف غنی اور ایساف کمانڈر کو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں افغان پناہ گزین تحریک طالبان کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کر دیئے ہیں۔ چیف صاحب نے افغانستان کے ارباب بست و کشاد سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ملا فضل اللہ سمیت دیگر دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کر دیا جائے اور دوسری صورت میں پاکستان بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کرے۔ پاکستان کے بہادر، نڈر اور باہمت آرمی چیف نے افغان حکام کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں خود آپریشنل ورک شروع کر دینے کا ارادہ بھی ظاہر کر دیا ہے جس سے افغان حکام بھی معاملہ کی سنجیدگی کو سمجھنے کی طرف آ رہے ہیں تاہم افغان حکام نے آرمی چیف آف پاکستان سے تعاون کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ضرب عضب چونکہ کامیابی کے ساتھ دہشت گردوں کا سرزمین پاکستان سے خاتمے کا موجب بن چکا ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر افغانستان میں دہشت گردوں کی قیام گاہیں بدستور قائم رہتی ہیں اور دہشت گرد افغانستان میں پناہ لئے بیٹھے اپنی کارروائیوں کو بھی منظم رکھتے ہیں تو ضرب عضب کے سو فیصد نتائج مشکوک ہو جاتے ہیں۔ اب جبکہ ان دہشت گردوں کو جنہوں نے جیلوں میں رہتے ہوئے بھی اپنی سرگرمیوں کو معطل نہیں کیا تھا اور دہشت گردی کی وارداتوں کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے اپنے معاونین پیدا کر رکھے تھے حکومت پاکستان نے سزائے موت دے دیا ہے تو بھی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ دہشت گردوں کو اپنی قبیح واردات کے انجام کا کوئی خوف ہو سکے گا؟ کیونکہ خودکش حملہ آور بن جانے والے، معصوم پھولوں کو روند دینے والے زندگی چھین لینے کو ثواب سمجھ لینے والے، عفوو درگزر کے دینی پیغام کو فوقیت دینے کے بجائے انسانیت کی بھلائی کا سوچنے کی بجائے انتقام و خونی کھیل کھیلنے پر مجبور رہنے والے یہ دہشت گرد اب نفسیاتی و ذہنی ہیجانی امراض میں مبتلا نظر آ رہے ہیں بحرحال دہشت گردوں کو پھانسی چڑھانے کے حکومتی عمل سے ملک کے امن کو تہس نہس کرنے والے مسلح گروہ کو یہ اندازہ تو ضرور ہو جائے گا کہ اب پاکستان دہشت گردوں کے لئے سافٹ نہیں رہ سکتا۔ ضرب عضب آپریشن سے تحریک طالبان کے حوصلے پست ہو گئے لیکن غیر ملکی شر انگیز چھپے ہاتھوں نے تحریک طالبان کو جو سپورٹ فراہم کی اس سپورٹ نے بھی ملکی سالمیت کو ٹھیس پہنچائی ایک طرف افغانستان کو اس وقت اپنے پناہ گزین دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنا ہو گا تو دوسری طرف امریکہ کو بھارت کو اس بات سے باز رکھنا ہو گا کہ وہ بھارت میں دہشت گردوں کو تربیت دیکر پاکستان بھیجے اور پاکستان میں موجود تحریک طالبان کے بقایا جات کو مالی معاونت دے۔ امریکہ جانتا ہے کہ خطے میں دہشت گردوں کی موجودگی صرف پاکستان کے امن کے لئے ہی نہیں بلکہ عالمی امن کے لئے بھی خطرہ ہے اس لئے دہشت گردی کا ایشو محض پاکستان کا ایشو بنا کر نہ رکھ دیا جائے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024