دہشت گردی کے جرم میں سزا یافتہ دو خطرناک مجرموں کو پھانسی کی سزا دے دی گئی۔گزشتہ کئی سال سے اس قانون کو معطل رکھنے سے خطرناک ترین دہشت گرد اور مجرم مقام عبرت بننے کی بجائے جرائم کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہے تھے۔سزائے موت (Capital Punishment)در اصل کسی بھی شخص پر عدالتی طور پر سنگین جرم ثابت ہونے پر دی جانے والی ہلاکت یا قتل کی سزا ہے۔یہ سزا فی الحال 58 ممالک میں فعال ہے جبکہ 95 ممالک میں اس سزا پر قانونی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ دنیا کی تقریباً 60 فیصد آبادی ایسے ممالک سے تعلق رکھتی ہے جہاں سزائے موت کو تاحال قانونی حیثیت حاصل ہے۔ ان ممالک میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ، عوامی جمہوریہ چین، بھارت اور انڈونیشیا شامل ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق سزائے موت دینے والے ممالک میں چین،ایران،عراق، سعودی عرب اور امریکہ سر فہرست ہیں۔2012میں دنیا کے 58 ممالک میں 1722 افراد کو سزائے موت دینے کے واقعات سامنے آئے ۔ ان اعداوشمار میں چین میں دی جانے والی وہ ہزاروں موت کی سزائیں شامل نہیں جن کی تفصیل تنظیم کے بقول خفیہ رکھی جاتی ہے۔2012 میں چین میں سب سے زیادہ سزائے موت دی گئیں جبکہ ایران، عراق، سعودی عرب اور امریکا سمیت کئی ممالک اس فہرست میں شامل ہیں۔
سزائے موت سے متعلق دنیا کے ممالک کی درجہ بندی کچھ اس طرح کی گئی تھی۔ پہلی کیٹیگری ان ممالک کی ہے جن میں سزائے موت پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ دوسری کیٹیگری ان ممالک کی ہے جہاں سزائے موت تو ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے اور تیسری کیٹیگری ان ممالک کی ہے جہاں سزائے موت کو یکسر ختم کردیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان پہلی کیٹیگری میں تھا جہاں سزائے موت پر عمل درآمد کیا جاتا تھا۔ صدر مملکت کی طرف سے ایک آرڈیننس کے ذریعے سزائے موت پر عمل درآمد روک دینے سے دوسری کیٹگری میں چلا گیا تھا۔ لیکن اب پھر کیٹیگری ون میں آگیا ہے۔واضح رہے کہ سزا کا بنیادی مقصد مجرم کی اصلاح، عبرت عامہ اور متاثرہ شخص کے جذبہ انتقام کی تسکین ہوتا ہے۔ تاکہ قانون کو ہاتھ میں لینے، اپنا بدلہ اور انتقام خود لینے کا رجحان پروان نہ چڑھے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ ”قصاص تمہارے لیے زندگی ہے“۔پاکستان میںیہ پابندی یورپی یونین کے د باو¿ پر لگائی گئی تھی تاہم اس کا فائدہ ان دہشت گردوں کو بھی ہوا جنہیں عدالتوں سے سزائے موت مل چکی تھی۔دہشت گردوں کیلئے سزائے موت پر پابندی کے خاتمے کے باوجود مقام حیرت ہے کہ یورپی یونین اب بھی دہشت گردوں کو تختہ دارپر چڑھانے کی مخالف نظرآتی ہے۔ہر باشعور شہری جانتا ہے کہ قاتل کیلئے سزائے موت تعزیرات پاکستان کا بھی حصہ ہے اور اسلام بھی اس کا حکم دیتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد پر پابندی لگا کر پاکستانی قانون کی بھی خلاف ورزی کی اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کا ارتکاب بھی کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستانی جیلوں میں پھانسی کی کال کوٹھڑیوں میں ساڑھے 8 ہزار قیدی سزائے موت کے فیصلے پر عمل درآمد کے منتظر ہیں۔ اگر ان قوانین پر عمل درآمد ہوتا تو پاکستان کا شمار ا±ن ممالک میں نہ ہوتا جہاں جیلوں میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ وہ دانشور جو اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا تو دہشت گردوں کی جانب سے سخت ردعمل آئیگا تو انہیں زمینی حقائق پیش نظر رکھنا چاہئیں کہ سزائے موت پر عمل درآمد پر پابندی کا بھیانک نتیجہ آرمی پبلک سکول کے 140 بچوں کی شہادت کی شکل میں سامنے آ چکا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مجرموں کو آئین و قانون کی روشنی میں سزا دے کر کیفر کردار تک پہنچانا عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جن ممالک میں موت کی سزائیں بحال ہیں وہاں سنگین جرائم بہت کم ہیں۔سزائے موت کے خاتمے کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 2010 میں 41 کے مقابلے میں 109 ووٹوں کی اکثریت رائے سے سزائے موت کو معطل کرنے کی قرارداد کی منظوری دے چکی ہے۔ جس کیلئے بعض ممالک سول سوسائٹی اور این جی اوز مسلسل تگ و دو کررہے ہیں۔سزائے موت کے خاتمے کے سلسلے میں دیگر ممالک کی طرح پاکستان پر بھی عالمی دباﺅ ہے اور خاص طور پر توہین رسالت پر سزا یافتہ مجرموں نے تو دنیا بھر کے ممالک، سربراہان اور این جی اوز کی توجہ کا رخ پاکستان کی جانب مبذول کردیا۔ پاکستان کو سیکورٹی کے حوالے سے جن مسائل کا سامنا ہے وہ انتہائی پیچیدہ اور گنجلک ہیں۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اچانک شروع نہیں ہوئیں بلکہ اسکے پس منظر میں ماضی کی حکومتوں میں بصیرت کی کمی اور ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کو اختیار کرنا ہے۔ یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد کے نگہبان قبائلی عوام جو ہماری سرحدوں کے پاسبان تھے اب انکے کئی متحرک گروپ پاکستان اور اسکے عوام کے دشمن قرار پا رہے ہیں۔
اس حوالے سے بحث اور دلائل تو دونوں طرف سے دئیے جا سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس صورتحال کی زیادہ ذمہ داری ہماری حکومتوں پر ہے لیکن اس وقت جو صورتحال ہے وہ اس بحث کی متقاضی نہیں۔ حالات کا تقاضہ ہے کہ ہم قلیل المدت اور طویل المدت اقدامات کا بیک وقت آغاز کریں۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی قلیل المدت منصوبہ بندی کا پہلا قدم ہے۔اس آپریشن نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ وہ بھوکھلاہٹ میں ہیں۔انہیںکچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سکول کے معصوم بچوں کو سفاکانہ بربریت کا شکار بنایا۔ وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب کو کامیاب بنانے کیلئے پوری عسکری قوت سے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے ٹھکانوں کو ختم کر دیا جائے۔ ان ٹھکانوں کے خاتمے کے بعد سول اور عسکری انتظامیہ کو مل کر ان علاقوں میں وطن دوست عوام کیساتھ ایک ایسا نظم و نسق اختیار کریں کہ مستقبل میں یہ علاقے ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں کی پناہ گاہیں نہ بن سکیں۔اس منصوبے پر عمل در آمد کیلئے کثیر جہتی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی جس کے تحت ان علاقوں کی مانیٹرنگ کے ساتھ وہاں ترقیاتی کاموں کو بھی تیزی سے آگے بڑھانا ہو گا۔ سول انتظامیہ کو متحرک اور معاون بنانا ہو گا تا کہ یہ علاقے "علاقہ غیر"کی بجائے "پاکستان کا حصہ" قرار پائیں۔ اسکے ساتھ ساتھ پورے ملک میں بھی ایک طویل المدت پالیسی کے تحت دہشت گردی کی فضا کو پروان چڑھنے سے روکنے کیلئے سماجی، اقتصادی اور مذہبی اصلاحات بھی کرنی ہونگی۔ان اقدامات کیساتھ ساتھ گڈگورننس کے فروغ اور معاشرتی ناانصافیوں کا خاتمہ بھی کرنا ہو گا۔مذہبی رواداری کے فروغ کے اقدامات کے ساتھ انتہاپسند رویے ا´ختیار کرنیوالے مذہبی اور سیاسی رہنماﺅں کے پر بھی کترنے ہونگے اور میڈیا کو بھی اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ ہم دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو Glorify نہ کریں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024