دہشت گردوں کو پھانسیاں---- حکومت کو مزید فعال ہونا اور میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا
خطرناک دہشت گردوں عقیل عرف ڈاکٹر عثمان اور ارشد محمود عرف مہربان کو رات 9 بجے ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد میں پھانسی دے دی گئی ہے۔ ڈاکٹر عثمان جی ایچ کیو اور سری لنکن ٹیم پر جبکہ ارشد محمود سابق صدر پرویز مشرف پر حملے میں ملوث تھا۔ سزائے موت کے دونوں قیدیوں کے آخری بیانات ریکارڈ کئے گئے۔ ڈاکٹروں نے ان دہشت گردوں کا طبی معائنہ کیا، ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دہشت گردوں کا طبی معائنہ کیا گیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دہشت گردوں کو نماز فجر کے بجائے رات 9 بجے ہی پھانسی دی گئی۔ جیل اہلکار کے مطابق قواعد و ضوابط میں ترمیم کی ہے جس کے تحت اب کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے۔ مزید آٹھ دہشت گردوں کے ڈیتھ وارنٹ جاری کر دئیے گئے ہیں۔ محکمہ داخلہ پنجاب کے ذرائع کے مطابق دہشت گردوں کو کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے۔ ان دہشت گردوں کو کوٹ لکھپت، فیصل آباد، بہاولپور اور اڈیالہ جیلوں میں پھانسی دی جائے گی۔ آٹھوں دہشت گردوں کی رحم کی اپیلیں پہلے ہی مسترد کی جا چکی ہیں۔ سنٹرل جیل سکھر کو سزائے موت کے 6 میں سے 2 قیدیوں کے ڈیتھ وارنٹ موصول ہو گئے ہیں۔ سندھ کی جیلوں میں سزائے موت پانے والے 450 دہشت گرد موجود ہیں، جیلوں میں پھانسی گھاٹ 2008ء سے ویران ہیں۔ سنٹرل جیل کراچی، حیدر آباد، سکھر، لاڑکانہ اور خیرپور پھانسی گھاٹ تیار کر لیا گیا ہے۔ خیبر پی کے حکومت نے بھی تمام انتظامات مکمل کر لئے ہیں۔ پھانسی کی سزا پانے والے قیدیوں کو علیحدہ سیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
16 دسمبر کو پشاور سانحہ جس میں 133 بچوں سمیت ڈیڑھ سو افراد کو دہشت گردوں نے سفاکیت کے ساتھ شہید کر دیا تھا اس کے اگلے روز وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمانی پارٹیوں کی کانفرنس طلب کی اور کانفرنس شروع ہونے سے قبل ہی انہوں نے 2008ء سے سزائے موت پر عائد پابندی ختم کر دی جس کا مقصد دہشت گردوں کو فوری طور پر انجام کو پہنچانا تھا۔ جیلوں میں بڑے دہشتگرد کبھی قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہوتے رہے اور کبھی جیلیں توڑ کر فرار ہو گئے۔ دہشتگردوں کو فوری پھانسی کے فیصلے کا ہر سطح پر خیرمقدم کیا گیا۔ ڈاکٹر عثمان اور ارشد کو 20 دسمبر کی صبح پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ کیا گیا، دونوں کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ آرمی چیف نے ان کی سزا پر دستخط کئے اور دونوں کو شیڈول سے ایک روز قبل 19 دسمبر کی رات کو سزا سے ہمکنار کر دیا گیا۔ حکومت کی طرف سے بھی دہشتگردوں کو فوری طور پر پھانسی گھاٹ پہنچانے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ آٹھ دہشتگردوں کو پھانسی کے انتظامات مکمل تھے 20 دسمبر ہفتہ کے روز سے پھانسی کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ ہوا تھا، ہفتے کو کہا گیا یہ عمل سوموار 22 دسمبر سے شروع ہو گا، شیڈول میں تبدیلی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ اس سے حکومت کے عزم میں کمزوری کا تاثر لیا جا سکتا ہے۔ 22 دسمبر کو سول حکومت کی طرف سے کسی دہشتگرد کو پھانسی نہ دی گئی تو دہشتگردوں سے خوفزدہ ہونے کا تاثر قائم ہو گا اور پاک فوج اور حکومت کے دہشتگردی کے خاتمے کے لئے ایک پیج پر آنے کے دعووں کی نفی بھی ہو گی لامحالہ اس کا نقصان جمہوریت کو پہنچ سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں حکومت اس قسم کی حماقت کی متحمل نہیں ہو سکتی، اسے اپنے قول و فعل میں تضاد کو ختم کرنا ہو گا۔ گزشتہ روز وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ دہشت گردوں کے حامیوں سے بھی سختی سے نمٹیں گے۔ وزیر اطلاعات قوم کو بتائیں کہ اب تک دہشتگردوں کے کس حامی کے خلاف کارروائی کی گئی؟ مولانا عبدالعزیز کُھل کر دہشتگردوں کی حمایت میں بول رہے ہیں انہیں اب تک پسِ زنداں ہونا چاہئے تھا۔ وزیر اطلاعات کے بیان کو بیان برائے ہی نہیں اسے مفاہمت بھی کہنا چاہئیے تھا ایسے بے معنی اور لایعنی بیان سے چُپ بھلی تھی۔
مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ ان کا طالبان سے تعلق ہے نہ دہشتگردی سے۔ ایسے بیانات دیگر لوگوں کی طرف سے بھی آئیں گے جو کل تک طالبان اور ان کے اقدامات کے حامی تھے۔ ان کے ماضی کو سامنے رکھ کر تحقیق اور تفتیش ہونی چاہئے۔ مولانا سمیع الحق کل تک ’’طالبان کے باپ‘‘ تھے، فوج اور حکومت کے دہشتگردوں، ان کے سہولت کاروں اور حامیوں کے خلاف کارروائی کے عزم کے بعد ان کی طرف سے طالبان سے لاتعلقی کا اظہار مشکوک حیثیت رکھتا ہے ۔
گزشتہ روز جی ایچ کیو میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت دہشتگردوں کے خلاف اپریشن کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا جس پر فوج کی طرف سے ایک بار پھر فوری طور پر عمل دیکھنے میں آیا۔ کراچی سے لے کر خیبر تک فوج نے کہیں زمینی اپریشن کئے اور کہیں فضائیہ کی مدد سے بمباری کی گئی جس میں 130 دہشتگرد ہلاک ہوئے۔ خیبر ایجنسی، کرم ایجنسی، گجرات اور کراچی فوجی اپریشن کا ہدف بنے۔ موجودہ حالات میں جمہوری حکومت کو جنگی بنیادوں پر فیصلے اور اقدامات کرنا ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ متحد ہو کر دہشتگردی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیں گے۔ شہباز شریف اپنے قول کو عملی شکل دیں۔ جو لوگ دہشتگردی کے خاتمے کے لئے قومی اتحاد کا حصہ نہیں بنتے ان کو بھی دہشتگردوں کی طرح انجام تک پہنچائیں اور پنجاب کی جیلوں میں موجود دہشتگردوں کو پھانسی پر لٹکانے میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی نہ کی جائے۔ دہشتگردوں اور دہشتگردی کے خاتمے کے لئے عالمی برادری پاکستان کے شانہ بشانہ ہے، پاکستان میں سول سوسائٹی بھی یکجہت ہے اس سے حکومت کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔
دہشت گردوں کو پھانسیوں کے حوالے سے میڈیا کو جس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا افسوس ایسا نہیں ہوا۔ میڈیا پر دہشتگردوں کے لواحقین کے انٹرویو نشر ہوتے رہے، یہ کہا جاتا رہا کہ وہ نعرے لگاتے پھانسی گھاٹ تک گئے۔ ایسی نشریات دہشتگردوں کو ہیرو بنانے کے مترادف ہیں۔ اس سے قوم کنفیوژ ہو سکتی ہے۔ نعروں والی بات میں کوئی صداقت نہیں، عینی شاہدین کے مطابق وہ کانپ رہے تھے، اپنے فعل پر شرمندہ اور معافی کے طلبگار تھے۔ کچھ میڈیا ہائوسز نے طالبان کی طرف سے مبینہ طور پر جاری کیا گیا خط بھی نشر اور شائع کیا ہے جس میں حکمرانوں اور فوج کو دھمکیاں دی گئی ہیں اس سے عوام میں خوف و ہراس پھیل سکتا ہے اور دہشت گردوں کو مزید بربریت کی شہہ مل سکتی ہے۔ میڈیا کو خود احتسابی سے کام لینا ہو گا۔
فوج اور حکومت کی طرف سے پھانسیوں کا شیڈول جاری کرنے کی ضرورت نہیں۔ جس کو سزائے موت سے ہمکنار کرنا ہے اس کی میڈیا میں تشہیر کی قطعاً ضرورت نہیں، اس سے جیل انتظامیہ کے لئے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ جیل انتظامیہ کے تحفظ کے لئے ان کی شناخت کو خفیہ رکھا جائے۔ کراچی اپریشن کے لئے جو ضوابط سامنے آئے اس میں مجرموں کے ٹرائل کے لئے جج حضرات کی شناخت کو بھی خفیہ رکھنے کی تجویز شامل تھی۔ سماعت کے دوران جج اور ملزم کے درمیان پردہ حائل کی تجویز تھی۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ خطرناک ملزموں کا ٹرائل جیل میں کیا جائے۔ دہشتگردوں کے خلاف مقدمات میں ان تجاویز پر عمل سے ججوں اور دیگر سٹاف مجرموں کے ظلم سے محفوظ رہیں گے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک نے دہشت گردوں اور سزائے موت کے قیدیوں کے حوالے سے اہم فیصلوں کیلئے 24 دسمبرکو اہم ترین اجلاس طلب کیا ہے۔ جس میں چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ‘ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس اور دہشت گردی عدالتوں کی ججز شرکت کریں گے۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے ہائی کورٹ سمیت تمام عدالتوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ حساس ترین مقدمات اور خاص طور پر دہشت گردی اور سزائے موت سے متعلقہ مقدمات جلد سے جلد نمٹائے جائیں، اب تک جتنے مقدمات نمٹائے گئے ہیں یا زیرالتوا ہیں ان کی تفصیلات 23 دسمبر تک طلب کی ہیں۔ 16 دسمبر کو دہشت گردوں کی پھانسیوں پر عمل ہو گیا تھا اس کے بعد عدلیہ کو بھی فوراً ایکشن میں آنا چاہئے تھا۔ چیف جسٹس صاحب نے 24 دسمبر کو اجلاس طلب کیا، انہوں نے 19 دسمبر کو یہ ہدایات جاری کیں، زیادہ سے زیادہ بھی 22 دسمبر کو اجلاس ہو جانا چاہئے تھا۔ موجودہ حالات میں عدلیہ کے زیادہ فعال ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ دہشتگردی کے کیسز عدلیہ کے پاس ہی آتے ہیں جس پر الزام ہے کہ جج خوف کے مارے دہشتگردوں کی ضمانتیں لیتے ہیں اور کچھ کو بری بھی کر دیا جاتا ہے۔ دہشتگردوں کا خاتمہ فوج، حکومت، عدلیہ اور ہر فرد کو اپنا فعالیت سے کردار ادا کرنے سے ہی ہو سکتا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024