اتوار ‘ 28؍ صفرالمظفر 1436ھ21 ؍ دسمبر 2014ء
سان فرانسسکو امریکہ میں سانتا کلاز نے بنک لوٹ لیا۔ آج تک ہم نے یہی دیکھا اور یہی سنا کہ سانتا کلاز کرسمس کے موقع پر گلی گلی جا کر بڑی چھوٹی سڑک پر شاپنگ سینٹرز میں ہسپتالوں اور گرجا گھروں میں چھوٹے چھوٹے بچوں میں تحائف تقسیم کرتے پھرتے تھے۔ ان کے لئے ہنسنے کھیلنے کا اہتمام کرتے تھے۔ ساری دنیا کے بچے سانتا کلاز کے روپ میں ایک ہمدرد اور بچوں کے دوست کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اب کسی ظالم ڈاکو نے اس روپ کی آڑ لے کر سان فرانسسکو میں بنک میں داخل ہو کر بنک لوٹ لیا۔ بنک والے تو ہکا بکا اس فرشتہ نما ڈاکو کو دیکھتے ہی رہ گئے ہوں گے۔ جو اتنی آسانی سے واردات کر کے رفوچکر ہو گیا۔ اور ہم بھی :
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
کہتے ہوئے رہ گئے۔ ویسے تو ہمارے ہاں بھی ہر طرح کے ڈاکو پائے جاتے ہیں۔ جو بھیس بدل کر گھر والوں کو بے وقوف بنا کر لوٹتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں یہ سلسلہ عرصہ دراز سے نہایت خیرو خوبی اور خوش اسلوبی سے قانون نافذ کرنے والوں کی معاونت سے چل رہا ہے۔ اور عوام لٹنے کے بعد صرف ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ یہاں ہمارے ہاں تو قانون کی وردی میں بھی ڈاکو چھپے بیٹھے ہیں۔ جو لٹنے والوں کی داد رسی کیا کریں ان کی باقی جمع پونجی بھی لوٹنے کے درپے نظر آتے ہیں۔ اب اس ناہنجار سانتا کلاز کی وجہ سے پوری دنیا میں سانتا کلاز کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھا جائے گا اور ہر جگہ ان کی تلاشی بھی لی جا سکتی ہے اور ان کے تھیلوں میں بھری مٹھائیوں، چاکلیٹوں اور کھلونوں کی جگہ لوگ اسلحہ تلاش کرتے نظر آئیں گے۔ جن سے یہ اچھا کام کرنے والے لوگوں کی دل شکنی ہو سکتی ہے۔ اب امریکی پولیس اس ڈاکو کو جلد پکڑ کر کسی کرسمس ٹری کے ساتھ الٹا ٹانگ دے۔
٭…٭…٭…٭
سردی کی شدت ، لنڈا بھی غریبوں کی پہنچ سے دور ہو گیا اس سے پہلے اتنا برا وقت غریبوں نے بہت کم دیکھا تھا۔ چند برس قبل تک لنڈا بازار غریبوں اور سفید پوش طبقوں کے لئے بہترین شاپنگ مال ہوتے تھے۔ جہاں یہ لوگ تھوڑی بہت تگ و دو اور مول تول کے بعد غیر ملکیوں کے عطیہ کئے ہوئے ’’اترن‘‘ مناسب داموں پر خرید کر موسم سرما کی شدت کا مقابلہ کرتے اور اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے تھے۔ پھر وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ طبقہ اشرافیہ کی فیشن ایبل خواتین اور نوجوان بھی غریبوں کے اس مال پر ہاتھ صاف کرنے لگے اور دکاندار بھی بیش قیمت اور جدید تراش خراش کے لباس، کوٹ، جوتے اور جرسیاں پوش علاقوں کی دکانوں میں سجا کر خوبصورت اور خوشنما پیکنگ میں مہنگے داموں فروخت کرنے لگے۔ جس کا چسکا پڑنے کے بعد یہ پیسے والے بھی لنڈے کے دیوانے ہو گئے اور اب لنڈے بازار میں غریب کم اور امیر زیادہ نظر آتے ہیں۔ غریب بے چارے تو شرمندہ شرمندہ منہ چھپا کر یہاں خریداری بھی ایسے کرتے ہیں جیسے چوری کر رہے ہوں۔ ہمیں تو یہ ایک سازش لگتی ہے ہر اچھی چیز تعلیم ہو یا گھر، زیور ہو یا زمین پھل ہو یا سبزی، گوشت ہو یا مچھلی یہ سب امیروں کے لئے مخصوص ہو چکی ہیں۔ غریب تو اب دال بھات سے بھی محروم ہونے لگے ہیں۔ لے دے کر یہ لنڈا رہ گیا تھا جو ان کے حقوق ملکیت میں تھا اب اس پر بھی امرا ناجائز طریقہ سے قابض ہو رہے ہیں۔ حالانکہ ان کے جیب اور پرس اتنے بھرے اور پھولے ہوتے ہیں کہ ان کا یہ اپھار بڑی دکانوں پر جا کر ہی ختم ہو سکتا ہے۔ مگر یہ ظالم غریبوں کی یہ جنت بھی ان سے چھیننے کے درپے ہیں۔ حکومت اس کا فوری نوٹس لے اور غریبوں کو بچائے تاکہ یہ سردی کا مقابلہ کر سکیں۔ جس طرح فوج دہشت گردوں کا کر رہی ہے۔
٭…٭…٭…٭
سول سوسائٹی کے ارکان کو دھمکیاں دینے پر لال مسجد کے مولاناعبدالعزیز اور ان کے محافظوں کے خلاف مقدمہ درج۔ سانحہ لال مسجد کے برقعہ فیم مولانا ان کی اہلیہ اب معلوم نہیں زوجہ اول تھی یا زوجہ دوئم نے چند روز قبل جس طرح داعش کے نام نہاد خلیفہ ابوبکر بغدادی کو اپنا خلیفہ قرار دیکر ان کے ہاتھ بیعت ہونے کا بیان جاری کیا تھا اور مولانا نے خود ساختہ امیر المومنین ملا عمر کو اپنا امیر قرار دیا تھا۔ پھر سانحہ پشاور کے حوالے سے ان کے بے سروپا بیانات پر سانحہ پشاور اور آرمی سکول سے مشتعل عوام نے مسجد کے باہر مولانا کے خلاف مظاہرہ کیا تو مولانا اور ان کے مسلح محافظوں نے ان نہتے شہریوں کو دھمکیاں دیں جس پر انہوں نے قانون سے رجوع کر لیا اور مولانا کے خلاف مقدمہ درج کر دیا۔
حیرت اس بات پر ہے کہ مولانا طالبان سے تو بات چیت کرنے پیار و محبت کی زبان استعمال کرنے کا درس دیتے ہیں۔ جو اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانا چاہتے ہیں جبکہ امن کے لئے لب کھولنے والوں اور مولانا کو اشتعال انگیز بیانات سے منع کرنے والوں کو مولانا بنفس نفیس خود مسلح محافظوں کے جمگھٹے میں دھمکیاں دینے پر اتر آتے ہیں۔حضرت دوسروں کو برداشت کا درس دینے والے آپ خود اس صبرو برداشت سے محروم کیوں ہیں۔ جب آپ ہی برداشت نہیں رکھتے تو پھر ان شہیدوں کے ورثاء سے کس قسم کے صبر کی توقع رکھتے ہیں۔ وہ تو سب نہایت صابر اور شاکر ہیں۔ جو جوابی اقدام پر نہیں اتر آئے ورنہ پورے ملک کے عوام ان شہیدوں کے وارث ہیں اگر یہ متحد ہو کر نکل پڑے اور بقول شاعر …؎
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
کا عملی مظاہرہ کرنے پر اتر آئے تو نہ آپ رہیں گے نہ کوئی قاتل۔ اگر آپ کو اتنا ہی شوق ہے خلافت کا تو براہ مہربانی شام یا عراق بمعہ بیگمات کے روانہ ہو جائیں۔ اور خلیفہ کے ساتھ مل کر جہاد و قتال کا اپنا شوق پورا کریں۔ مگر ایسا بھی آپ جیسے لوگ جو آرام طلب اور سرکاری نوکری سے مال کماتے ہوں کہاں کر سکتے ہیں۔ ورنہ لال مسجد کو بے گناہوں کے لہو سے لال کرنے کی بجائے آپ کب کے نوکری پر لات مار کر بمعہ اہل و عیال کے افغانستان کے جہاد میں جنت مکانی خلد آشیانی ہو چکے ہوتے۔ ایسا نصیب آپ جیسوں کے کہاں جو دوسروں کے بچوں کو جہاد کے نام پر مرواتے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے دنیا بھر کی نعمتیں سمیٹتے پھرتے ہیں۔