محمد رفیع بٹ پنجاب کے صف اوّل کے مسلم صنعتکار اور بینکر تھے۔ انہوں نے قائداعظم اور تحریک پاکستان کی دل و جان سے حمایت کی۔ انکی قائد سے خط و کتابت سے عیاں ہوتا ہے کہ ان کا قائد سے تعلق 1936ءسے ا ستوار تھا اور قائد اعظم بھی انکی کاروباری صلاحیتوں اور ا ستعداد پر پوری طرح اعتماد کرتے تھے۔ رفیع بٹ نے مسلمانوں کی ا قتصادی ترقی کیلئے قائد کو متعدد سود مند تجاویز پیش کیں جس کے بعد جلد ہی دونوں کے مابین تعلقات قربت میں بدل گئے۔
رفیع بٹ کو مسلمانوں کی جرات جذبے اور کر گزرنے کی صلاحیتوں پر کامل یقین تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ مسلمانوں کو امریکہ اور برطانیہ کی جدید ترین ترقی سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہوں نے متعدد بار امریکہ کا دورہ کیا۔ ان کا آلات جراحی، دھات سازی اور کیمیکل کا کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی پر گامزن تھا۔ ان کی روز افزوں ترقی کی وجہ فی الحقیقت یہ تھے کہ انہوں نے ا پنی صنعتی پیداوار کیلئے جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کیا تھا۔ وہ خواش مند تھے کہ قائد اعظم مسلمانان پنجاب کو غفلت سے بیدار کریں اور انہیں ان کے صوبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے کوئی پیش رفت کریں۔ انہوں نے قائد اعظم کو صنعت و تجارت کے شعبہ میں اپنی خدمات پیش کیں۔ اس طرح وہ مسلمانوں کی ترقی میں مدد گار بننے کے خواہش مند تھے۔ ان کا یہ محکم عزم تھا کہ اگر مسلم صنعت کاروں اور تاجروں کو حقیقی معنوں میں متحرک کیا جائے تو وہ مسلم لیگ کے لئے خم ٹھونک کر کھڑے ہو سکیں گے اور اس کے پہلو بہ پہلو مسلمان قوم کے مستقبل کو تابناک بنا سکیں گے۔
قائد اعظم نے بذات خود رفیع بٹ کو مسلم لیگ پلاننگ کمیٹی کا ممبر مقرر کیا۔ جب 1943ءمیں پلاننگ کمیٹی قائم کی گئی تو رفیع بٹ نے قائد کے نام اپنے ایک خط مورخہ 22جنوری1944ءمیں اقتصادی شعبہ میں مسلمانوں کی ترقی کیلئے قائد کی پرجوش کاوشوں کو سراہتے ہوئے رفیع بٹ نے تحریر کیا۔ بالخصوص پاکستان زونز میں، مسلمانوں کی اقتصادی و سماجی ترقی کیلئے آپ کا پروگرام خصوصی توجہ کا طا لب ہے۔ ا نہوں نے اقتصادی پلاننگ کمیٹی کے قیام کو حقیقی معنوں میں بہت اہمیت کا حامل قرار دیا۔ رفیع بٹ 1940-48ءمیں قائد کے بہت قریب رہے اور بالخصوص 1943-48ءقیام پاکستان سے قبل یہ فیصلہ کن سال تھے۔ قائد نے انہیں کان کنی اور دھات سازی بشمول سٹیل اور دوسری دھاتوں کی پیداوار کی سب کمیٹی کا چیئر مین مقرر کیا۔
انہوں نے کولڈ سٹوریج اور ریفریجریشن کے مختلف طریقہ ہا ئے کار کا مطالعہ بھی کیا اور پنجاب میں کولڈ سٹوریج کا ایک پورا سلسلہ قائم کرنے کا پروگرام بنایا۔
وہ شدید خواہش رکھتے تھے کہ پاکستان کی صنعتی اور اقتصادی بنیاد مضبوط ہو۔ ہندوستان سے غیر متوقع طور پر اور وسیع پیمانے پر مہاجرین کی آمد نے ملک کے بنیادی ڈھانچہ کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ ہندو پیشہ ورانہ ماہرین کے چلے جانے سے خلا پیدا ہوا جو پُر کرنا پڑنا تھا۔ یہ ا یک بہت عظیم مسئلہ تھا۔ تعمیر نو کے لئے ایک ٹھوس منصوبہ کی ضرورت تھی۔ جو ایسا شخص ہی پیش کر سکتا تھا جو قیادت کی صلاحیت، جذبہ پیش رفت، اور زندگی کے بارے میں پربصیرت اور ولولہ انگیز تصور رکھتا ہو۔
مجوزہ ”پاکستانی علاقوں“ کے بنیادی ڈھانچہ کی از سر نو تعمیر، رفیع بٹ کی سوچ کا بنیادی محور بن گئی ا نہوں نے فرمایا کہ ”عزیز ترین مقصد پاکستان کو حاصل کر لینے کے بعد ہمیں چاہیے کہ ہم اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لئے اپنا وقت اور توانائی وقف کر دیں۔محمد رفیع بٹ حقیقی معنوں میں ایک محب وطن تھے اور ملک کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن وہ نہ کر سکے کیونکہ ان کا 26 نومبر 1948ءکو 39برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ پاک ایئرویز کا جہاز جس میں وہ سفر کر رہے تھے وہاڑی کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثہ میں کوئی نہ بچا۔ ان کی موت کے ساتھ ہی خوشحال اور بہتر پاکستان کیلئے ان کے منصوبے اور عزائم بھی دم توڑ گئے۔ پاکستان نے اپنا ایک بطل جلیل گنوا دیا۔
رفیع بٹ خود ساز انسان اور دلیر صنعتکار تھے۔ انہوں نے کاروبار اور انڈسٹری کی ا نتہاﺅں کو چھوا۔ وہ قائد کے معتمد خاص تھے یہ ناقا بل یقین معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت ہے کہ یہ تمام شاندار حقائق ان کی موت کے چالیس بر س کے بعد منظر عام پر آئے یہ حالات کی ستم ظریفی تھی کہ یہ حقائق وقت کی گرد میں دبے رہے ایک یاد وتصاویر، اور چند معلومات موجود تھیں۔ ان احساسات نے نے ان کے بیٹے امتیاز رفیع بٹ کو متحرک کیا اور وہ اس مدھم اور غیر واضح شخصیت کی تلاش میں نکل پڑے پا نچ سال کی تکلیف دہ تحقیق نے اس شخصیت کی حقیق خدوخال کو عیاں کیا۔ اب رفیع بٹ، جناح فاﺅنڈیشن جسے ان کے بیٹے امتیاز رفیع بٹ نے قائم کیا، کی تحقیق کا مرکزی موضوع ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024