خیبر پختون خواہ کی اے این پی کی حکومت کو اپنی چارسدہ، مردان، صوابی کی محدود سوچ سے نکلنا ہو گا جس کی وجہ سے انھوں نے پہلے ہی ہزارہ ڈویژن کے لوگوں کو ذہنی طور پر جدا کر دیا ہوا ہے۔ کچھ سرائیکی لوگوں نے بھی جنوبی اضلاع کو اپنی طرف کھینچنا شروع کیا ہوا ہے۔
کالا باغ ڈیم کی منفی سوچ میں اے این پی والے لوگ اوپر والے علاقے کے چار چھوٹے ڈیموں یعنی چترال دیر کالام اور منڈا پر زور دیتے ہیں۔ یہ چاروں چھوٹے ڈیم مل کر MAF 5.25پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں۔ اے این پی والے بڑے پرزور انداز میں کہتے ہیں کہ اگر یہ چار چھوٹے ڈیم بن چکے ہوتے تو پشاور، چارسدہ، نوشہرہ میں 2010کے سیلاب میں اتنی تباہی نہ ہوتی۔ وہ کالا باغ ڈیم کے متعلق ماننے کے لےے تیار نہیں ہیں۔ ان کا یہ چار چھوٹے ڈیموں والا مطالبہ مان لینا چاہےے اور جب تک کالا باغ ڈیم پر اتفاق پیدا کیا جا رہا ہے یہ چار چھوٹے ڈیموں کو جلد از جلد مکمل کر لینا چاہےے۔ جیسے ہی یہ اتفاق رائے آگے بڑھ رہا ہے کالا باغ ڈیم کے مخالفین کو چاہےے کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کریں اور وہ ٹیکنیکل وجوہات بیان کریں جن کی بنا پر انھیں ڈر ہے کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا کہ کس طرح کالا باغ جھیل سے رستا ہوا پانی 125کلومیٹر اوپر اونچی زمین کی طرف پہنچے گا۔ دریائے سندھ کے مغربی کنارے کے ساتھ نوشہرہ تک سنگلاخ پہاڑی سلسلہ ہے۔
پنجاب حکومت کو چاہےے کہ ہر سال مارچ، اپریل کے مہینوں میں سندھ کو ادھار پر پانی دینا بند کر دے۔ اگر ایک سال ایسا نہ کیا جائے تو سندھ کے لوگوں کو کالا باغ ڈیم کی قدروقیمت محسوس ہونا شروع ہو گی۔ کالا باغ ڈیم کے گرد ایک دھارا بنایا جائے جس میں سندھ کے پانی کا حصہ رواں دواں کیا جائے، یہ ایک علامتی دھارا ہو گا جس کا کنٹرول ارسا بنائے۔ بلوچستان اپنے حصے کا پانی استعمال ہی نہیں کر پاتا۔ وہ تو صرف سندھ اور خیبر پختون خواہ کے ساتھ یکجہتی کے طور پر مخالفت کرتا ہے۔ پنجاب کو اجازت ہونی چاہے کہ وہ اپنے حصے کے پانی پرپشتے باندھے۔
پنجاب کے آٹھ کروڑ کسان اور کسان مزدور پہلے ہی سخت غریبی میں پس رہے ہیں کیوں کہ ان کی گندم ایک امدادی قیمت میں جڑی ہوئی ہے۔ سوائے گندم کی قیمت کے باقی ہر شے کی قیمت آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ مثلاً 1964سے لے کر اب تک ڈیزل 21پیسے فی لیٹر سے 538گنا بڑھ کر 113روپے فی لیٹر ہو گیا ہے مگر اتنے عرصے میں گندم صرف 75گنا بڑھی ہے۔ باقی مارکیٹ میں ہر شے 400سے 500گنا بڑھ گئی ہے۔ ڈیزل کی قیمت جو پے در پے بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ سندھ کے کسانوں اورہاریوں کو نہیں چبھ رہی کیوں کہ وہ سستا نہری پانی استعمال کرتے ہیں۔ اس نے پنجاب کے کسانوں اور کسان مزدوروں کو سخت تکلیف میں ڈالا ہوا ہے کہ وہ بلبلا رہے ہیں گندم کی ایسی قیمت بھی بڑے بھائی کا پیار ہے پنجاب کو اپنے وسائل کے لحاظ سے اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہےے اور اپنا صحیح حق تسلیم کروانا چاہےے۔ پنجاب میں غربت بہت زیادہ ہے۔ سندھ کے سیاست دان نہیں سمجھتے کہ کالا باغ ڈیم ان کے فائدے میں ہے۔ جناب ابراہیم مغل کے بتائے ہوئے حقائق بہت زیادہ آزمودہ ہیں اور ان پر گہرائی سے غور کرنا چاہےے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہوں کہ میرا سامنا ایسے دانش وروں سے ہوتا رہے جو واقعی اہل بصیرت ہوں۔ مارچ، اپریل 2010 میں ایسے ایسے دانش ور حضرات ٹی وی پر آتے رہے اور وہ ہمیں بتاتے رہے کہ تمام ڈیم (جو ہمارے چند ہیں) صفر کی سطح یعنی ڈیڈ لیول پر پہنچ رہے ہیں اور تو اور زیر زمین پانی بھی ندارد ہے۔ وہ تو کہیں اتھاہ گہرائیوں میں چلا گیا ہے۔ کہاں ہے پانی کہ ہم اس کے لےے ڈیم بنائیں۔ کیا وہ دانش ور حیران و ششدر نہیں ہوئے جب تین ماہ بعد ہی سیلاب 2010نے ہمیں ٹھوکریں مارنا شروع کیں۔ جب پانی ٹھاٹھیں مارتا ہوا اپنی پوری گھن گرج کے ساتھ ہمیں تھپیڑے مارتا ہوا میل ہا میل پھیلی ایک طوفانی چادر کی شکل میں بہے جا رہا تھا۔ 29نومبر 2012کو ایک ٹی وی چینل پر جناب ابراہیم مغل کے ساتھ ایک ڈپٹی سیکرٹری تھے۔ انھوں نے فرمایا ہمارے دفتری ریکارڈ میں اگلے چھ سال میں کوئی پانی ہی نہیں ہے تو کالا باغ ڈیم کدھر بنائیں گے۔ انھیں سے میرا سوال ہے کہ آپ کے ریکارڈ اگر اتنے صحیح ہیں تو کیا آپ نے سیلاب 2010 کا صحیح اندازہ لگایا تھا تو پھر اتنی تباہی و بربادی کیوں ہوئی۔
پیپلز پارٹی پنجاب سے بہت زیادہ ووٹ حاصل کرتی ہے پھر بھی یہی پارٹی کالا باغ ڈیم کی سب سے زیادہ مخالفت کرتی ہے۔ مئی 2010 میں جب سندھ میں سخت خشک سالی چل رہی تھی سندھ کے لوگوں نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے پوچھا کہ اتنی خشک سالی چل رہی ہے۔ آپ پانی کا بندوبست کیوں نہیں کرتے۔ گیلانی صاحب نے جواب دیا ”ہم اپنے لوگوں کے لےے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں اور پانی کے لےے ہمیں بھارت سے جنگ بھی کرنی پڑی تو ہم وہ بھی کریں گے“ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ کالا باغ ڈیم بنائیں گے یا کوئی اور ڈیم بنائیں گے۔ بھارت کے ساتھ جنگ کی بات کر دی لیکن سیلاب 2010 جب اپنی خونخوار تیزی سے ہر طرف تباہیاں پھیلاتا ہوا بہے جا رہا تھا تو گیلانی صاحب نے یہ بیان دیا کہ کالا باغ ڈیم اگر بن گیا ہوتا تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔ یہی بیان اس وقت پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے بھی دیا۔ اب حیران کن بات ہے کہ پیپلز پارٹی کے دوسرے راہ نما یہ بھول گئے ہیں کہ ان کی پارٹی کے چوٹی کے راہ نماﺅں نے سیلاب 2010کی تباہ کاریوں کے وقت کالا باغ ڈیم بننے کے حق میں بیان دیا تھا۔
ڈیم ملک کی معیشت میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ایک لاکھ ڈیم بنائے ہیں، چین نے 87 ہزار ڈیم بنائے ہوئے ہیں اور بھارت نے 7ہزار ڈیم بنائے ہوئے ہیں جب کہ پاکستان نے صرف 75ڈیم بنائے ہیں۔
ایک بڑی کثیر تعداد میں لوگوں نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سراہا ہے کالا باغ کے مخالفین کو سپریم کورٹ میں اپیل کرنا چاہےے۔ اس اپیل میں سندھ کے پیپلز پارٹی کے راہ نما محکمہ کے ریکارڈ سے ثابت کریں کہ منگلا اور تربیلا ڈیم کے بننے کے بعد سندھ میں 27لاکھ ایکڑ زمین سیراب نہیں ہوئی تھی۔ اے این پی کے راہ نما یہ ثابت کریں کہ کالا باغ جھیل سے رستا ہوا پانی نوشہرہ کی طرف اونچی زمین کی طرف کیسے جا سکتا ہے۔ نوشہرہ جھیل سے 125کلومیٹر پانی کے بہاﺅ کے خلاف واقع ہے اور دریائے سندھ کے مغربی کنارے کے ساتھ سنگلاخ پہاڑی سلسلہ ہے۔ ان کو چاہےے کہ ٹیکنیکل طریقے سے اپنا نقطہ نظر بیان کریں اگر یہ دونوں گروپ اپنا اپنا نقطہ نظر نہ ثابت کر سکیں تو کالا باغ ڈیم پر ریفرنڈم کرا لینا چاہےے۔
جناب ابراہیم مغل کے مطابق سندھ میں 20لاکھ ایکڑمزید سیراب ہوں گے۔ 55لاکھ ٹن گندم مزید پیدا ہو گی اس مزید گندم کو برآمد کریں تو تقریباً 4ارب ڈالر حاصل ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ موجودہ زراعت میں وسعت و توازن پیدا ہو گا اور گندم کی شکل میں پیداوار 23ملین ٹن سے بڑھ کر 35ملین ٹن تک پہنچ جائے گی اور اس کے ساتھ ہم 3600میگاواٹ سستی ترین بجلی بھی پیدا کر سکیں گے۔
یہ تو بہت مقناطیسی حقائق اور ہندسے ہیں۔ صرف ایک سوئی قوم ہی اپنی ایسی چھپی ہوئی توانائیوں کو ضائع کر سکتی ہے۔ کیا ہم خود ہی اپنی ”تباہی“ کے درپے ہیں۔ بے چارے پاکستانیوں نے تو پچھلے پانچ سال کانٹوں بھری رہ گزر پر گزار دیے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38