عائلی نظام کی تخریب کا نیا قانون
ہر معاشرے کی ہیئت، رسم ورواج، عادات واطوار، رہن سہن اور دیگر اوصاف جن کے باہمی اشتراک کو ہم کلچر کا نام دیتے ہیں ایک دوسرے سے مختلف حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، اسی طرح مذاہب کے ساتھ بھی جڑے ہونے کے سبب دیگر مزید عوامل ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ہم یورپ اور اپنا تقابل کریں تو یہ فرق واضح طور پر زندگی کے ہر پہلو میں نظرآئے گا۔ اب نہ تو ہم اْن کا رہن سہن اپنا سکتے ہیں نہ ہی عادات واطوار اور مذاہب تو پھر ہیں ہی متضاد، لہذا ہم بعض چیزوں میں اْن کی پیروی تو کرسکتے ہیں جیسے سائنسی ترقی لیکن دیگر میں پیروی کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہمارا کلچر جو بذات خود ایک مضبوط کلچرہے اس کا اپنا ایک خاندانی نظام ہے، جو آج بھی بہت مضبوط ہے۔ جبکہ یورپ کا خاندانی نظام اول تو ہے ہی نہیں اور اگر کہیں کہیں ہے بھی تووہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظرآتا ہے۔ حال ہی میں گھریلو تشدد کو روکنے کے حوالے سے نیا قانون بنانیکی تجاویز دی گئی ہیں اس موضوع پر نہایت جامع اور دلائل پر مبنی ایک کتاب مجھے موصول ہوئی جس کا نام"عائلی نظام کی تخریب کا نیا قانون" ہے۔ کتاب کے مصنف جسٹس(ر)میاں نذیراحمد ہیں جن کی ساری زندگی انہی قوانین کے پیچ وخم کو سلجھاتے ہوئے گزری ہے۔جسٹس(ر)میاں نذیراحمد نہ صرف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں بلکہ خود بھی نستعلیق شخصیت کے مالک ہیں، ہمہ جہت اوصاف رکھتے ہیں۔ ادب کااعلیٰ ذوق بھی ہے اور دیگر کئی موضوعات پر بھی مضبوط گرفت ہے۔ آپ نے گھریلو تشدد کو روکنے کے بل کے خلاف لکھی ہے اور بلا شبہ اس میں مضبوط دلائل کے ساتھ اپنے نظریہ کو بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ گھریلو تشدد کو روکنے کا قانون دراصل تذلیل والدین کا قانون ہے۔ اس پر عمل درآمد کی صورت میں خاندانی نظام تباہ ہوکر رہ جائے گا۔ میں جسٹس صاحب کی بات سے سوفیصد اتفاق کرتی ہوں۔ والدین سے زیادہ اولاد سے سے محبت رکھنے والا دوسرا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ اْن کی مار ان کے پیار کا دوسرا روپ ہے جو بچے کی بہتری اور بھلائی کیلئے ہے۔ جب والدین کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر قیمتی لباس اورتعلیم مہیا کرتے ہیں۔ بہترین نوالہ اپنا پیٹ کاٹ کر اْنکے منہ میں ڈالتے ہیںوہاں یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ اْن کا بچہ بڑا ہوکر بہترین انسان بھی بنے اورزندگی کے سفر میں کامیاب بھی ہو۔اس نئے قانون کے مطابق والد، والدہ یا گھر کا کوئی بزرگ اولاد کو روکنے ٹوکنے(سرزنش کرنے) یا صرف جسمانی مار کی دھمکی دینے پر مستوجب سزا ہوگا۔ جو کم از کم 6ماہ قید سے تین سال قید تک ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں اْسے ایک لاکھ روپے جرمانہ اور کم از کم20 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ نہ سربراہ کنبہ اولادکی نگرانی کیلئے اْن کا تعاقب کرسکتا ہے بلکہ ہرجانہ اولاد کو دے کر سربراہ کنبہ کو کڑاپہننے، جی پی ایس ٹریکر بریسٹ پہننے، اولاد سے دْور اور گھر سے باہر نکل جانے کا حکم دے سکتی ہے۔ قارئین مجھے تو یہ پڑھ کر عجیب سا دکھ ہورہا ہے۔ ماں جس کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ جو اس جنت کا شجرسایہ دار ہے۔ انکی اس سے بڑھ کر تذلیل کا سامان اور بھلا کیا ہوسکتا ہے۔اس قانون کا نام بمطابق دفعہ 1، The Domestic Violance(Prerention and Protection 2021 رکھا گیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا موثر سسٹم برائے تحفظ، داد رسی اور بحالی قائم کیا جائے جس سے عورتوں، بچوں اوربوڑھے ذہنی مریض اور جسمانی یا نفسیاتی طور پر معذور لوگوں کو گھریلو تشدد سے محفوظ رکھا جائے۔ جسٹس نذیر احمد لکھتے ہیں کہ بظاہر سنہری لفظوں کی چمک کے نتیجے اس قانون میں خاندانی نظام کی تباہی کے خطرات اور دیگر مذموم مقاصد چھپے ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میںہمارا خاندانی نظام روحانی اور شرعی برکات سے محروم ہوکر تباہ وبرباد ہوجائے گا۔ جسٹس نذیر احمد لکھتے ہیں کہ حیرت تو اس بات پر ہے کہ تین نمایاں سیاسی پارٹیاں اس قانون پر متفق نظر آتی ہیں۔حتیٰ کہ اس میں وہ سیاسی جماعت بھی شامل ہے جو پاکستان میں ریاست مدینہ کی طرز کی ریاست بنانے کی دعویدار ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ قانون بڑی رازداری اور غیر ضروری عجلت سے منظورکروایا گیا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بل کی انگریزی کاپی فراہم کی گئی جبکہ اس کو پڑھنے اور غوروخوض کرنے کے لئے ممبران کو مناسب وقت ہی نہیں دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی غیر مرئی ہاتھ ان کو غیر ضروری عجلت پر مجبورکررہا تھا۔ اس قانون کو جتنا بھی دلائل کے ساتھ جائز اور ضروری بنانے کی کوشش کی جائے حقیقت یہ ہے کہ والدین کیلئے اس سے زیادہ بدترین امتیازی سلوک کا مظاہرہ نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری طرف اگر ہم مذہب کے آئینہ میں دیکھیں تو جگہ جگہ اولاد کو حکم دیا گیا ہے کہ و ہ والدین کی خدمت میں کوئی کمی نہ چھوڑیں اور اْنکی کسی بات پر اْف تک نہ کہیں۔ اس قانون کے بعد تو ہر والدین یہ سوچیں گے کہ اولاد اْن کیلئے اللہ کا انعام یا جزا نہیں بلکہ عائلی قوانین نے اْن کے لئے سزا بنا کر رکھ دیا ہے۔ والدین جسے اپنا مان اور بڑھاپے کا سہاراسمجھتے ہیں وہ ان سے چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔آپ اس قانون کو خاص طور پر لڑکیوں کے حوالے سے سوچیں۔ اس کے بعد معاشرہ تباہی کے کس دھانے پر ہوگا۔ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ جسٹس صاحب نے لکھا ہے کہ بہت سے قابل عزت ممبران اور افراد نے اس کی سخت مخالفت بھی کی ہے۔ پوری کتاب میں آپ نے قرآن وحدیث کے بے پناہ حوالے دئیے ہیں۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ بیوی اور اولاد کو اْن کی خطاہ وگناہ پر کون سی سزا دینا واجب ہے۔ کتاب میں ہر پہلو پرتفصیلا" بات کی گئی ہے۔ آپ اس کا مطالعہ ضروری کیجئے۔ نستعلیق پبلشرز نے اسے اہتمام سے شائع کیا ہے۔