پاکستان میں کئی لوگ سوال کرتے ہیں کہ بھارت نے کشمیر پر آرٹیکل تین سو ستر ختم کر دیا تو اس سے فرق کیا پڑا۔کشمیر تو پہلے ہی بھارت کے قبضے میں جکڑا ہوا ہے۔
فرق سمجھنے کے لئے میں آپ کے سامنے دو بھارتی ریاستوںکے وزرائے اعلی کے بیانات پیش کرتا ہوں۔ بہار کے وزیر اعلی نے کہا کہ اب میری ریاست کے لڑکوں کو کشمیر میں روزگار ملے گا۔ اور ہریانہ کے وزیر اعلی نے تو حد ہی کر دی۔ کہنے لگے کہ ہمارے نوجوان پہلے کالی کلوٹی بہاری لڑکیوں سے شادی رچاتے تھے ، اب وہ کشمیری کی گوری لڑکیوں کو ہریانہ لا سکیں گے ۔دیکھا کہ کس طرح بھارت کے لوگ کشمیر پر گدھوں کی طرح للچا رہے ہیں۔ ایک کشمیری لڑکی نے جواب دیا کہ ہم کوئی سیب نہیں ہیں کہ بھارتی لوگ آئیں اور مارکیٹ سے خرید کر لے جائیں۔ ہم ان کے ہاتھ توڑ ڈالیں گی۔شاباش ہے ایک سکھ تنظیم کو جس نے سوال ا ٹھایا کہ ہریانہ کے لوگ اپنی لڑکیوں کو ماں کے پیٹ میںماریں گے اور کشمیری لڑکیوں کو گھر لانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ہریانہ دنیا کا وہ علاقہ ہے جہاں ابارشن کی شرح سب سے زیادہ ہے۔خاص طور پر جیسے ہی گھر والوں کو پتہ چلتا ہے کہ ان کی بہو بیٹی کے پیٹ میں بچی پرورش پا رہی ہے تو ابارشن سے اسے قتل کر دیا جاتا ہے، ابارشن کی زیادہ شرح کی وجہ یہ ہے کہ ہریانہ میں غربت کی انتہا ہے اور لوگ بچوں کی پرورش کے اخراجات کے ڈر سے انہیں ماں کے پیٹ ہی میں ہلاک کر دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ دنیائے عرب میں بچیوں کو زندہ قبر میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ معصوم بچی چیخ چیخ کر پوچھتی تھی کہ ابو جی میرا جرم کیا ہے تو باپ خاموش رہتا اور اسے ریت کے ڈھیر میں دفن کر کے چلتا بنتا۔ اب سائنس کی ترقی سے لڑکی کو ماں کے پیٹ ہی میں ہلاک کیا جا سکتا ہے تو ہریانہ کی ریاست نے یہ وطیرہ ہی پکڑ لیا ہے۔ مگر یہ کیا کہ اپنی بچیوں کو تو ماں کے پیٹ میںمار ڈالو اور کشمیری لڑکیوں کو للچائی نظروں سے دیکھو تو یہ ہے وہ فرق جو آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے کے خاتمے سے واقع ہوا ہے۔ ایک فرق اور بھی ہے۔ کشمیر کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے ۔اور یہ دونوں علاقے ایک جیل کا منظرپیش کرر ہے ہیں۔، دو اگست سے ان کا زمینی اور ہوائی راستہ کاٹ دیا گیا ہے۔ لینڈلائن ٹیلی فون بند پڑے ہیں، موبائل فون سروس بھی معطل ہے اوروائی فائی بھی میسر نہیں۔ این وڈی ٹی وی کی چیف ایگزیکٹو برکھا تو کسی طرح سری نگر پہنچنے میںکامیاب ہوئیں تو انہوں نے دلدوز مناظر ریکارڈ کئے۔ شوگر کی بوڑھی مریضہ دوائی نہ ملنے سے بے ہوش ہے۔ ایک شوہر سر پھوڑ رہا ہے کہ اسکی بیوی نے بچے کو جنم دنیا ہے مگر وہ ہسپتال نہیں جا سکتا۔ ایک معصوم لڑکا پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ہاتھوں میں لہراتا گلی میں جاتا ہے تو کہیں سے گولیوں کی بارش ہو تی ہے اور وہ تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا ہے، اسے ابتدائی طبی امداد بھی نہیں دی جاتی۔ پوری دنیا کو معلوم نہیں کہ ایک مختصر سی و ادی میں نو دس لاکھ فوج کشمیریوں پر کیا کیاستم ڈھا رہی ہے۔ بے خبری اور ایسی بے خبری کہ وادی کشمیرمیں ایک قبرستان کی سی خاموشی ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں چیخ و پکار کر ری ہیں مگر انہیں صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے بھارت سرکار ویزہ دینے سے انکاری ہے۔ پاکستان کو خدشہ ہے بلکہ یقین ہے کہ کشمیر میں نازی جرمنی اور اسرائیل جیسی نسل کشی کا تجربہ دہرایا جائے گا ۔ علاقے میںموجود لوگوں کو ہانک کر وادی سے نکال دیا جائے گا یا انہیں آزاد کشمیر کی طرف دھکیل دیا جائے گا اور ان کے گھروں۔دفتروں، کارخانوں،کھیتوں پر بھارت سے ا ٓنے والے ہندو انتہا پسند قابض ہو جائیں گے۔ ایسا قتل عام ہو گا کہ بوسنیاا ور روہنگیا کی مثالیں بھی پیچھے رہ جائیں گی۔ بھارت کی حکومت صرف اور صرف ہندواتا کی قائل ہے ۔ وہ غیر ہندو کا وجود تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ مسلمانوں کو ان کے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکاری ہے۔ کسی شخص پر شبہہ بھی ہو جائے کہ وہ گائے کا گوشت فروخت کرتا ہے تو اسے زندہ آگ میں جلا دیا جاتا ہے۔ میں نے اجمیر شریف کے گدی نشین کی ویڈیو دیکھی ہے ۔ وہ رو رو کر کہہ رہے ہیں کہ کیا وہ اپنے اولیا کی در گاہوں کو چھوڑ کر ترک وطن کر جائیں۔مودی نے نئے بھارت کا نعرہ لگایا تھا۔ اس نئے بھارت میں اس نے کسی مسلمان کو الیکشن لڑنے کے لئے ٹکٹ نہیں دیا۔ کسی مسلمان سے ووٹ نہیں مانگا۔مسلمانوں کے مدرسوں کو اجاڑا جا رہا ہے۔ مسجدوں کو شہید کر کے ان کی جگہ مندر کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ سب سے بڑا نصب العین یہ ہے کہ بابری مسجد جسے مسمار کیا جا چکا ہے۔ اس کی جگہ رام مندر تعمیر کیا جائے۔نریندر مودی پاکستان کے خلاف سازشیں پروان چڑھا رہا ہے۔ پچاس سال بعد اس نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش ہر بھارتی نے بنوایا اور اب وہ اسی طرز پر بلوچستان ، آزادکشمیر اور گلگت کے لوگوں کو حقوق دلوائے گا۔ مودی کو زعم ہے کہ وہ علاقے کی سپر پاور ہے اور پاکستان کو اس کی ذیلی ریاست کا درجہ اختیار کر کے شودروں کی طرح رہنا ہو گا ورنہ مٹ جانا ہو گا۔ پلوامہ میں اس کے مذموم ارادے صاف سامنے آ گئے تھے جس کی ا ٓڑ میں اس نے پاکستان پر فضائیہ کے ذریعے سرجیکل اسٹرائیک کاڈرامہ رچایا مگر پاک فوج کے جوابی وار سے اسے منہ کی کھانا پڑی۔ بھارتی فضائیہ کا ایک ونگ کمانڈر پکڑا گیا اورا س کے دو جہاز گرا دیئے گئے۔ ساتھ ہی جموں چھائونی میںموجود بھارتی فوج کے سر براہ کو نشانہ بنانے کے لئے لاک کیا گیا مگر پاکستان نے میزائل کا بٹن نہیں دبایا ۔ صرف یہ ثابت کیا کہ پاکستان کی مہارت کیا ہے، اس کی جنگی صلاحیت کیا ہے۔
پاکستان جانتا ہے کہ بھارت ایک عیار دشمن ہے۔ وہ چو مکھی جنگ لڑ رہا ہے ۔ اس نے کئی محاذ کھول دیئے ہیں۔ ایک طرف اس کے وزیر دفا ع نے پہلے ایٹمی حملے کی دھمکی دے دی ہے دوسری طرف کہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ مذاکرات سے طے کر لو اور کشمیر سے مراد ہے آزادکشمیر۔ تیسری طرف اس نے آبی جارحیت کاآغاز کر دیا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی رو سے اسے سیلاب کی صورت میں پاکستان کو پیشگی خبر دار کرنا چاہئے تھا مگر اس نے لداخ میںاپنے ڈیم کے دورازے کھول دیئے ہیں۔ تربیلا ڈیم پہلے ہی پورا بھر چکا ہے۔ا س کامطلب یہ ہے کہ دریائے سندھ سے کراچی تک تباہی پھیل جائے گی ۔ ساتھ ہی اس نے مشرقی پنجاب میں راوی ا ورستلج کے ڈیم کھول دیئے ہیں جس سے میرے آبائی علاقے گنڈا سنگھ والا کے دودرجن دیہات سیلاب میں ڈوب گئے ہیں اور ابھی بڑا ریلا ہیڈ ورکس سے گزرنے والا ہے جس سے قصور تحصیل میں وسیع تباہی کا خدشہ ہے اور چناب ا ور جہلم میں طغیانی سے سیالکوٹ،نارووال۔جھنگ اور ملتان کے علاقوں میں سیلاب کا خدشہ ہے۔ اوپر سے بھارت کی تیاری ہے کہ وہ کسی جہادی کیمپ کا الزام لگا کر آزاد کشمیر یا پٹھان کوٹ کے سامنے پاکستانی حدود میں سرجیکل سٹرائیک کر سکتا ہے۔ بھارت کو ذرا بھر احساس نہیں کہ وہ جس ملک سے متھا لگا رہا ہے، وہ ایک ایٹمی ملک ہے اور آرمی چیف جنرل باجوہ کے بقول اپنی بقا کے لئے آخری حد تک جا سکتا ہے۔ یہ ہیں وہ سارے ڈھیر سارے خطرات جو بھارت کے پانچ اگست کے ایک اقدام کی وجہ سے خطے ہی کو نہیں ،عالمی امن کو در پیش ہیں۔ میں نے کشمیری لڑکیوں سے بات شروع کی تھی مگر اس پر تبصرہ نہیں کر سکا۔ اس لئے کہ پہلے ہی بھارتی فوج نے سات سالہ بچی سے لے کرستر سالہ بوڑھی خاتون کی عزت تار تار کرنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بھارت میں انسانیت نام کو بھی نہیں۔ وہ حیوان ہے ۔ وحشی ہے اور درندہ ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024