وزیراعظم پاکستان عمران خان کی تقاریر، عوامی اجتماعات سے خطاب اور گفتگو کا مرکز ریاست مدینہ کا تصور ہے۔ حقیقت میں وہ تاجدار انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریاست کا فلسفہ عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
جب ہم ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو اس کا واضح مطلب قرآن کے احکامات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کی بات ہوتی ہے۔ اس میں مذہبی رواداری بھی ہے، تحمل مزاجی بھی ہے، برداشت بھی ہے، مظلوم کا ساتھ بھی نظر آتا ہے، حق پر قائم رہنے کی مثالیں بھی ملتی ہیں، حق کے لیے ڈٹے رہنے پر تکالیف کو برداشت کرنے کے واقعات بھی نظر آتے ہیں۔ اس ریاست کے خد و خال میں توکل و تقویٰ بھی نظر آتا ہے، صداقت و امانت بھی نظر آتی ہے، بچوں پر شفقت نظر آتی ہے، بڑوں کی تکریم دکھائی دیتی ہے، اس میں معرکے بھی نظر آتے ہیں، اس میں معاہدے بھی نظر آتے ہیں، اس میں میدان جنگ کا سبق بھی ملتا ہے، اس میں دشمنوں پر رحم بھی نظر آتا ہے۔ غرضیکہ ایک مثالی ریاست نظر آتی ہے۔ اب ہم اس فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو کیا ہمارے اردگرد ایسا ماحول ہے کہ ہم ریاست مدینہ کے تصور اور اس خواب کو تعبیر دے سکیں تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہمارا معاشرہ اخلاقی پستی میں اتنا نیچے گر چکا ہے کہ اسے اٹھنے کے لیے دہائیوں کی محنت درکار ہوں گی پھر بھی کامیابی ملتی ہے یا نہیں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یقینا اس مقصد پر کام کرنے والے آج کم کم ہی نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ کا۔قیام ضرور چاہتے ہیں لیکن وہ اس ریاست کے قیام کے بنیادی اجزاء سے محروم ہیں۔ اگر وہ خواب کی تعبیر چاہتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے قوم کی کردار سازی پر کام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کام اکیلے کر بھی نہیں سکتے، نہ ہی یہ کام پلک جھپکنے میں ہو جائے گا، نہ ہی کوئی سرکاری نوٹیفکیشن عوام کو جھوٹ بولنے، ملاوٹ کرنے، بددیانتی کرنے، کم تولنے اور دھوکہ دینے سے روک سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک مستقل عمل کی ضرورت ہے، یہ ایک سو اسی ڈگری کا کراس ہے۔ ہم نسل در نسل جھوٹ، فریب، بددیانتی،خیانت اور مکاری کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں ہمیں ان عادات کو چھوڑنے میں نسلیں لگیں گی تب جا کر کوئی شکل نکلے گی۔
قارئینِ کرام بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک ہمارے قائدین نے قوم کی کردار سازی پر کوئی توجہ نہیں دی۔ مذہبی ہوں یا سیاسی رہنما سب نے اپنے ووٹرز اور مریدین کی تعداد میں اضافے کو۔ہدف بنا کر کام کیا اور کامیابی بھی حاصل کی لیکن ان بنیادی خامیوں کو دور کرنے پر کسی نے توجہ نہیں دی جو آج بھی ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ حکمران اپنی حکومت بچانے میں لگے رہے یا دور حکومت کو طوالت دینے میں الجھتے رہے انہوں نے جان بوجھ کر اس معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا نہیں کیا جہاں ایک عام آدمی سرعام خلیفہ وقت سے سوال کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ ہم نے اپنے ادارے ایک ایک کر کے تباہ کر دیے لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اداروں میں میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں کرتے گئے اور آج ہر سرکاری ادارے خسارے میں ہے۔ ریاست مدینہ میں تو کالے کو گورے پر گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں، ریاست مدینہ میں قبیلے صرف پہچان کے لیے لیکن ہمارے ہاں تقرریاں تعلقات، ذات برادری اور خفیہ مفادات کے تحفظ کے لیے کی جاتی ہیں ۔ ایک مرتبہ کا ذکر ممتاز بھٹو ریلوے کے وزیر تھے انہوں نے شعبہ آڈٹ کے ڈائریکٹر اکرم خان کو ایک شخص کو ملازمت پر رکھنے کے لیے فائل بھجوائی افسر موصوف نے انہیں واپس لکھ بھیجا کہ یہ شخص ہمارے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتا اسے نہیں رکھا جا سکتا۔اس پر وزیر صاحب کا جواب آیا کہ اس نے تو صرف سائن کرنے ہیں باقی کام تو کسی اور نے کرنا ہے لہذا اے بھرتی کر لیں۔ نالائقی کا ایک اور واقعہ سنیں۔ ڈاکٹر نسیم اشرف پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین تھے وہ اپنے دستخط میں صرف این اے لکھتے تھے ان کے پاس فائلیں آتی رہیں اور وہ اپنے مخصوص انداز میں این اے لکھ کر متعلقہ افسر کے پاس بھجواتے رہے۔ چیئرمین کی طرف فائلیں نکلتی رہیں لیکن اس کے باوجود کام میں رکاوٹ پیش آئی تو متعلقہ افسر سے پوچھا گیا کہ کیا ماجرا ہے تو جواب ملا چیئرمین صاحب نے این اے یعنی نو ایکشن لکھ کر بھیج دیا ہے۔ بعد میں انہیں سمجھایا گیا کہ اس این اے کا مطلب نو ایکشن نہیں بلکہ نسیم اشرف ہے تب جا کر رکے کام ہوئے۔ آج اگر نظام سسکیاں لے رہا ہے تو اس کی وجہ بنیادی اصولوں سے انحراف ہے۔
ریاست مدینہ کا قیام چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے آپ کو صادق و امین بنائیں۔ پھر بات بنے گی۔ ایسے کرپٹ معاشرے، جھوٹ کی بنیاد پر چلنے والے معاشرے، ناپ تول میں کمی کرنے کو فن سمجھنے والے، ملاوٹ کو مہارت سمجھنے والے، حقوق غصب کرنے کو بہادری سمجھنے والے، برائی پر اترانے والے افراد ریاست مدینہ قائم نہیں کر سکتے۔
وزیراعظم عمران خان قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو ایک آل پارٹیز کانفرنس قوم کی کردار سازی پر کال کریں۔ ون پوائنٹ ایجنڈہ بنا رکھیں کہ صرف جھوٹ ترک کر دینا ہے۔ سچ بولا جائے گا سچ سنا جائے گا، سیاست دان قوم سے وعدہ کریں کہ جھوٹ نہیں بولیں گے، جھوٹ نہیں سنیں گے، غلطی کو تسلیم کریں گے۔ یقین مانیے تبدیلی نظر آنا شروع ہو جائے گی۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قائم کردہ ریاست کا نمونہ پیش کرتے پھریں دوسری طرف بنیادی اصولوں سے انحراف کرتے رہیں تو یہ اس کام سے ووٹ بینک تو بن جائے گا لیکن قوم کی کوئی خدمت نہیں ہو گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38