اس بار یوم پاکستان کچھ کچھ بلکہ بڑی حد تک یوم کشمیر بن گیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خاں نے یوم پاکستان کو یوم کشمیر بنا دیا۔ انہوں نے یوم پاکستان آزاد کشمیر میں منایا اور یوم پاکستان اور یوم کشمیر ایک ہو گیا۔ ان کے مخلص جانثاردوست ڈاکٹر بابر اعوان بھی ان کے ساتھ تھے۔ ایسے ہی لوگ عمران خان کے سچے اور وفادار ہیں۔ انہوں نے آزاد کشمیر اسمبلی میں کشمیر اسمبلی ارکان سے خطاب کیا۔ انہوں نے ایک بہت بڑا پیغام ساری دنیا کو دیا اور بھارت کی طرف بھی یہ زبردست پیغام پہنچا۔
کیا کسی پاکستانی حکمران نے کبھی ایسا کیا ہے؟یوں تو عمران خان نے آزاد کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنا دیا ہے۔ انشاء اﷲ دونوں کشمیر پاکستان میں شامل ہونگے۔ پھر کوئی بھی طعنے دینے والی گفتگو نہ کر سکے گا۔
ایک تصویر میں عمران خان دی گریٹ ڈاکٹر بابر اعوان سے مشاورت کر رہے ہیں۔ مجھے اچھا لگا۔ میں چاہتا ہوں کے عمران خان پاکستان کا ایسا وزیراعظم بنے جو ورلڈ کپ جیت کے لایا تھا ایسی خوشی ایک بے مثال واقعہ ہے۔ ایسی مثال ایک آدمی بلکہ اکلوتے آدمی کی طرف سے انہوں نے شوکت خانم بنایا جو پوری دنیا میں ایک مثال ہے۔ ہسپتال موجودہے تو عمران کا نام بھی زندہ ہے شوکت خانم ایک عظیم اور کمال کی ماں کی دعا ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ملاقات کا شرف ان سے ملا تھا۔ میں عمران خان کے والد سے بھی ملا ہوں۔ وہ میرے ساتھ بہت شفقت کرتے تھے۔ اب عمران کے مخلص اور اہل بلکہ اہل دل دوست ڈاکٹر بابر اعوان سے بھی مجھے دوستی ملی ہے۔ میں انہیں ایک مخلص دوست سمجھتا ہوں۔ وہ دوستوں کی درخواست کے بغیر انہیں پتہ بھی نہیں چلنے دیتے اور کام ہو جاتا ہے۔ عمران خان کو اپنی ماں کی دعاؤں اپنے والد کی شفقت اور سچے دوستوں کے تعاون نے اس مقام تک پہنچایا ہے۔
عمران ایک خوش قسمت اور بے غرض آدمی ہے اسے وہ بہت کچھ بہت پہلے عطا ہو گیا تھا ان پر اﷲ بڑا مہربان ہے۔ اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ کہیں سے خدانخواستہ جس کے لئے ہمارے مصنوعی اور جعلی حکمرانوں کو کرپشن اور ظلم و ستم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لئے عام حکمران کرپشن کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ اس لحاظ سے حکمرانوں میں وہ پاکباز آدمی ہے۔ فلاحی اور بڑا آدمی ہے۔ شکر ہے کہ عمران خان کو دوست بھی اچھے ملے ہیں۔ اس میں خاص طور پر ڈاکٹر بابر اعوان کا نام لیا جا سکتا ہے۔ عمران خان اپنے دوستوں پر اعتماد کرتا ہے۔ اس لئے لوگ ان سے پیار کرتے ہیں۔
عمران کو بظاہر پیار کا اظہار کرنا نہیں آتا۔ مگر لوگ تو اظہار مانگتے ہیں۔ میرے خیال میں اظہار محبت ہر لحاظ سے محبت سے بڑا جذبہ ہے۔ ایف سی کالج لاہور کی ایک طالبہ میرے پاس آئی تھی اور میرے ساتھ اپنے ساتھی کی بات کی کہ وہ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے مگر وہ محبت کے کسی جذبے کو مانتا ہی نہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم اس سے اظہار محبت کرتی رہو تو اس نے کہا کہ یہ مشکل ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ تم اس کیساتھ اظہار محبت کی اداکاری کرو۔ اس نے کہا کہ محبت کی اداکاری بھی ہوتی ہے؟ میں نے کہا کہ اس کے بڑے فائدے ہوتے ہیں۔ وہ کچھ دن کے بعد پاس آئی اور کہا کہ میں نے تو اس کے ساتھ محبت کی اداکاری کی اور وہ میرے ساتھ سچ مچ محبت کرنے لگا ہے۔ تو میں نے کہا کہ محبت کی اداکاری کے بھی اتنے ہی فائدے ہیں جو محبت کے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک محبت کی اداکاری ہے جو جائز ہے۔ ویسے ہر اداکاری جائز سمجھ کر کرنا چاہئے۔
عمران خان نے یوم پاکستان کو یوم کشمیر منا کر مقبوضہ کشمیر تو حاصل نہیں کر لیا مگر اس کا تہلکہ پوری دنیا میں پھیل گیا اور وزیراعظم بھارت مودی کو بہت خفت اٹھانا پڑی۔
امریکی صدر ٹرمپ نے بھی دونوں ملکوں میں ثالثی کرانے کی کوشش کی اور اعلان بھی کیا۔ پاکستان کے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی موجودگی میں ان سے بات چیت کرتے ہوئے اعلان کیا۔ اس کے لئے مودی نے واضح انکار کیا جو سفارتی آداب کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ دنیا والوں نے بھی بھارت کے اس تاثر کو برا مانا ہے پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی تھی جسے دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اب جنگ کے ذریعے تو مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا۔ فلسطین بھی اس طرح حل نہیں ہو گا فلسطین کے لئے تو جنگ کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
چونکہ پاکستان اور بھارت دونوں نیوکلیئر ملک ہیں۔ عربوں میں تو ایک بھی نیو کلیئر ملک نہیں ہے۔ اسرائیل ہے مگر ابھی اس کی طرف سے اعلان نہیں ہوا۔ سفارتی حوالے سے بھی عرب بہت پیچھے ہیں۔
جبکہ پاکستان نیو کلیئر طاقت ہونے کے حوالے سے بھارت کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ نوازشریف نے بھارت کے پانچ دھماکوں کے مقابلے میں چھ دھماکے کئے مگر اسکے فوائد پاکستان کو حاصل نہیں ہوئے۔
ایٹمی سائنسدان کو پیچھے ہٹا کے ایٹمی دھماکوں کے وقت خود آگے ہونے کی بات بھی کی نواز شریف کا یہ بڑا بولہ پن کسی کو نہیں پھایا۔ نواز شریف نے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو آگے لانے کی کوشش کی ایٹمی دھماکے کرتے وقت اصل ایٹمی سائنسدان عبدالقدیر خان پچھلی صف میں کھڑا تھا مگر یوں لوگوں کو صاف نظر آ رہا تھا ڈاکٹر ثمر مبارک تو لوگوں کو نظر بھی نہیں آیا وہ شاید نواز شریف کے پیچھے کہیں چھپ کے کھڑا تھا۔ ہم ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو پسند کرتے ہیں مگر انہیں کام کرنے سے شاید روک دیا گیا ہے۔ لوگ آج بھی ڈاکٹر قدیر خان کو پاکستانی ایٹم بم کا کریڈٹ دیتے ہیں ڈاکٹر قدیر خان کو ایٹم بم کے اصل محرک بھٹو صاحب نے بلوایا تھا پھر نہ بھٹو کو رہنے دیا گیا اور ڈاکٹر قدیر خان کو بھی پیچھے کر دیا گیا۔
لیکن آج بھی جلسوں اور عوامی جگہوں پر انہی کی پذیرائی ہوتی ہے ایک دفعہ برادرم شہباز شیخ کے اولڈ راوینز (سابق گورنمنٹ کالج کے سابق سٹوڈنٹس) کی تقریب میں جب ڈاکٹرقدیر خان کو سٹیج پر بلایا گیا تو سب خواتین و حضرات اٹھ کھڑے ہوئے اور بہت دیر تک تالیاں بجتی رہیں نواز شریف کی بد سلوکیوں کی وجہ سے ڈاکٹر قدیر خان پاکستان کیلئے جانثار ہیں۔ اور وہ ایٹمی سائنسی ٹیکنالوجی کے حوالے سے اپنے ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دینا چاہتے ہیں مگر خود غرض حکومتیں ان سے کوئی بڑا کام نہیں لینا چاہتیں۔
میری بڑی منت سے فلاحی شخصیات شہباز شیخ سے گزارش ہے کہ وہ اس حوالے سے ایک تحریک شروع کرے تاکہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ سائنسی ملک بنایا جا سکے۔
یہ عمران خان کا بہت اچھا فیصلہ کہ اس نے ایک بہادر اور قابل آدمی چیف کو تین سال کیلئے ایکسٹینشن دے دی ہے یہ ایک بہت بڑا اور پاکستان کیلئے فائدہ مند فیصلہ ہے عمران خان سے گزارش ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کو بھی بلائے اس کے ساتھ ایٹمی سائنسی معاملات پر عوامی انداز میں بات کرے بیشک آرمی چیف جنرل باجوہ کو بھی بلالے اور ایٹمی پروگرام ترتیب دے تاکہ پاکستان کو ایک ایسا ملک بنایا جا سکے جسے عمران خان ’’نیا پاکستان‘‘ کہتا ہے اس کے مطابق لوگ پاکستان میں پڑھنے کیلئے اورتربیت حاصل کرنے آیا کریں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024