جنرل باجوہ کی سربراہی میں عساکر پاکستان دنیا کی مانی ہوئی ڈسپلنڈ پیشہ ور سپاہ بن چکی ہے
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے منصب میں مزید تین سال کی توسیع۔ وزیراعظم کا ملکی سلامتی کے تقاضوں کیمطابق صائب فیصلہ
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو انکی مدت ملازمت میں تین برس کی توسیع دے دی گئی ہے۔ انہوں نے رواں سال 29؍ نومبر کو مدت ملازمت پوری کرکے اپنے منصب سے سبکدوش ہونا تھا تاہم اب وہ نومبر 2022ء تک پاک فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔ گزشتہ روز وزیراعظم آفس کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے دستخطوں کے ساتھ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے منصب میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو انکی موجودہ مدت ملازمت کی تکمیل پر مزید تین برس کیلئے آرمی چیف مقرر کیا جاتا ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ خطہ میں سلامتی کی صورتحال کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق بطور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دوبارہ تقرر سے ملک کی داخلی اور بیرونی سلامتی کی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہے گا۔ افغان مسئلہ پر پاکستان کے تعاون میں کوئی اتار چڑھائو نہیں آئیگا اور بھارت کے ساتھ فوجی کشیدگی اور لائن آف کنٹرول کی مخدوش صورتحال سمیت مشرقی سرحدوں کے حالات پر نئے سرے سے غور کی ضرورت پیش نہیں آئیگی۔ اسی طرح جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی بدولت ملک کی داخلی اور بیرونی سلامتی کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں و دفاعی نظاموں کے حصول‘ ہتھیار سازی‘ افغانستان اور کشمیر پر سفارتی و فوجی حکمت عملیوں میں بھی تسلسل برقرار رہے گا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے دوران کمانڈز انتہاء پسندی کے خاتمہ کے شعبہ میں سب سے زیادہ توجہ مرکوز رکھی۔ انہوں نے انتہاء پسندی کے خاتمہ اور شدت پسندی کے انسداد کیلئے مکاتب فکر کے تمام نمائندہ علماء سے مسلسل انفرادی اور اجتماعی ملاقاتیں کیں اور اسی مشاورت اور اعتماد سازی کی بدولت مدارس میں نصاب کی تبدیلی سمیت درکار اصلاحات کی سمت پیش رفت ممکن ہو سکی ہے۔ علاقائی سلامتی کے حوالے سے افغانستان میں قیام امن کیلئے جنرل باجوہ کا بطور آرمی چیف کلیدی کردار ہے اور حالیہ مہینوں میں امریکی فوجی حکام اور ٹرمپ انتظامیہ کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کے ساتھ انکے روابط بڑھے چنانچہ بطور آرمی چیف انکے دوبارہ تقرر سے امریکی بھی مطمئن ہونگے کہ افغان امن مذاکرات کے فیصلہ کن مرحلہ میں انہیں پاکستان میں نئے آرمی چیف کے ساتھ نئے سرے سے بات نہیں کرنا پڑیگی بلکہ دونوں کے مابین اس حوالے سے جو اعتماد سازی ہوچکی ہے وہ مزید مستحکم ہوگی۔ اسی طرح سی پیک کی محافظ بھی پاک فوج ہے اور اس حوالے سے چین کے متعلقہ حکام اور جی ایچ کیو کے مابین ایک خاص ربط ہے جو جنرل باجوہ کی موجودگی کی وجہ سے نہ صرف قائم رہے گا بلکہ مستحکم ہوگا۔
یہ امر واقع ہے کہ بھارت کی مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ اور بھارت کی جارحیت جنرل قمر جاوید باجوہ کیلئے ایک چیلنج کا درجہ رکھتی ہے اور وہ متعدد بار کنٹرول لائن پر اگلے مورچوں پر جاکر پاک فوج کے جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے اور ہر بھارتی چیلنج کے مقابلہ کیلئے مکمل تیار رہنے اور اسے فوری دوٹوک جواب دینے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں۔ اس حوالے سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرکمان ہی پاک فوج نے رواں سال 27 فروری کو بھارتی فضائیہ کی دراندازی کا دندان شکن جواب دیا اور پاک فضائیہ کے مشاق دستے نے فضا ہی میں دو بھارتی جہازوں کو اچک لیا اور پاکستان کے اندر انکے حملے کا منصوبہ غارت کرکے انہیں مار گرایا جس کے ایک پائلٹ ابھی نندن کو زندہ گرفتار کرنے کے بعد جذبۂ خیرسگالی کے تحت رہا کیا گیا۔ پاک فوج کو جنرل باجوہ کی قیادت میں اب بھی ہر بھارتی چیلنج سے عہدہ برأ ہونے میں کوئی دقت پیش نہیں آئیگی کیونکہ وہ گزشتہ تین برسوں سے بھارتی جارحانہ عزائم سے نمٹ رہے ہیں اور پلوامہ حملہ کے بعد کی جھڑپوں اور کشیدگی سے وہ عمدہ انداز میں نبردآزماء ہوئے ہیں۔ یقیناً یہی اعتماد آئندہ بھی ملک کی سلامتی کے تحفظ و دفاع کے معاملہ میں عساکر پاکستان کیلئے طرۂ امتیاز بنے گا۔ اس وقت جبکہ دشمن کی سازشوں کے تحت شمالی‘ جنوبی وزیرستان اور بلوچستان میں دہشت گرد پھر سر اٹھا رہے ہیں‘ انہیں عساکر پاکستان کے بہترین انٹیلی جنس سسٹم کے باعث جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرکمان دوبارہ مات دینا اور کیفرکردار کو پہنچانا آسان ہوگا۔ اسکے ساتھ ساتھ پاک ایران سرحدی کشیدگی بھی ہماری سلامتی کے حوالے سے تشویش کا باعث بنتی رہی ہے جس سے عہدہ برأ ہونے کیلئے عساکر پاکستان نے جنرل باجوہ کی زیرکمان ایک مربوط انٹیلی جنس کے ماتحت سرحد کے آرپار دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی سختی سے مانیٹرنگ کی اور اسکی بنیاد پر ملک کے دفاعی حصار کو مضبوط بنایا جبکہ پاک ایران سرحد کے معاملہ میں ایران کی قیادت میں پیدا ہونیوالی بعض غلط فہمیوں کا بھی اسی مانیٹرنگ سسٹم کے باعث ازالہ ہوا تھا اور بھارتی ’’را‘‘ کا حاضر سروس جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو بھی اسی مربوط سسٹم کی مدد سے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ اس تناظر میں اور اندرونی و بیرونی طور پر ملک کی سلامتی کے تقاضے جاری پالیسیوں کے مطابق نبھانے کیلئے عساکر پاکستان کی کمان کے تسلسل کی ضرورت تھی تاکہ اس کمان کی فعالیت سے دفاع وطن کیلئے پوری قوم کے عساکر پاکستان کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہونے کی دھاک بھی ہمارے مکار دشمن پر بیٹھی رہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں سیاسی جمہوری استحکام کی فضاء بھی ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں کے عملاً ایک صفحے پر آنے سے استوار ہوئی جس میں لامحالہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حکومتی معاملات میں مداخلت سے گریز اور حکومت کے تعمیری کاموں کا ساتھ دینے کی پالیسی اختیار کرکے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ بطور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے منصب کے تسلسل سے ملک میں جمہوریت کی بنیاد مزید مضبوط و مستحکم ہو گی اور اسکے خلاف ماضی جیسی محلاتی سازشوں اور بعض غیرجمہوری عناصر کی خواہشات کے باوجود کسی ماورائے آئین اقدام کی کوئی گنجائش نہیں نکل پائے گی اور ارض وطن کی محافظ عساکر پاکستان اپنی خالص پیشہ ور قیادت کی زیرکمان دفاع وطن اور تعمیر ملک و ملت کے تقاضے احسن طریقے سے نبھاتی رہیں گی جس کی آج بھارتی مودی سرکار کے جنونی عزائم کی بنیاد پر پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
آئین کی دفعہ 243(3) کے تحت آرمی چیف سمیت افواج پاکستان کے سربراہان کا تقرر وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ہے جو صدر مملکت نے خالصتاً وزیراعظم کی مشاورت سے بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ اس میں آئین کی منشاء بھی سول اور عسکری قیادتوں میں باہمی تال میل کی فضا مستحکم بنانے کی ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں وزیراعظم کے اس صوابدیدی آئینی اختیار کو ملکی اور قومی مفاد اور ملکی سلامتی کے تقاضوں کے بجائے ذاتی مقاصد اور مفادات کیلئے بروئے کار لایا جاتا رہا‘ نتیجتاً ادارہ جاتی ہم آہنگی کے بجائے کشیدگی اور کھچائو کی فضا میں سلطانیٔ جمہوری پر بھی زد پڑتی رہی اور ہمارے مکار دشمن بھارت کو بھی ہماری ان اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کی سلامتی سے کھیلنے کی سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملتا رہا۔ اگر ملک کی سیاسی اور عسکری قیادتیں ایک صفحے پر آکر ترقی و دفاع وطن کی ذمہ داریوں میں جت جائیں جیسا کہ آج اس معاملہ میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادتوں میں مثالی ہم آہنگی اور تعاون کی فضا استوار ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی تمام اندرونی کمزوریوں پر قابو پاکر اور ملک کی سلامتی کیخلاف اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی ہر سازش ناکام بنا کر اس ملک خداداد کو دنیا کی مضبوط اور ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل نہ کر سکیں۔ عساکر پاکستان نے پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی محافظ بن کر جہاں ملک کیلئے شاہراہ ترقی کی تمام منزلیں طے کرنا آسان بنایا ہے وہیں برادر چین کے ساتھ ہمالیہ سے بلند‘ سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی کو بھی مزید مضبوط کیا ہے چنانچہ آج مقبوضہ کشمیر پر بھارتی شب خون کے تناظر میں چین بھی ہمارے دفاعی حصار کے ساتھ جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ اس علاقائی‘ اندرونی اور عالمی صورتحال کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے یقیناً دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کی ضرورتوں اور تقاضوں کے عین مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف کے منصب پر مزید تین سال تک برقرار رکھنے کا انکی مدت ملازمت پوری ہونے سے تین ماہ پہلے ہی فیصلہ کرلیا اور اس کا باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا جس سے جہاں مفاد پرستانہ سیاسی ایجنڈا رکھنے والوں کی افواہ ساز فیکٹریوں کو چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا وہیں ملک میں جمہوریت کی حکمرانی اور کرپشن فری سوسائٹی کیلئے حکومتی کاوشوں کے بارآور ہونے میں بھی کوئی امر مانع نہیں رہے گا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ بجا طور پربطور آرمی چیف اپنے نئے تقرر کے مستحق ہیں بلکہ انکے منصب کا تسلسل ملک کے دفاع اور سیاسی و اقتصادی استحکام کیلئے نیک شگون بھی ثابت ہوگا۔ آج عساکر پاکستان دنیا کی مانی ہوئی ڈسپلنڈ‘ خالص پیشہ ور اور جنگی‘ حربی‘ دفاعی صلاحیتوں سے مالامال افواج میں شمار ہوتی ہیں جن کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی اقوام متحدہ اور برادر سعودی عرب سمیت پوری دنیا معترف اور قائل ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ جیسے زیرک اور مشاق سپہ سالار کی زیرکمان عساکر پاکستان بلاشبہ ملک کی سلامتی اور علاقائی استحکام کو درپیش ہر چیلنج میں سرخرو ہوگی۔