خِطے کی تباہی پر تلا ہوا بھارت
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے وزارتِ خارجہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے تین چار روز قبل پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور دونوں لیڈروں پر کشیدگی کم کرنے پر زور دیا۔ وزیر اعظم عمران نے صدر ٹرمپ کو بتایا کہ مودی کے اقدام نے خطے کو خطرے سے دوچار کیا ہے۔ اُنہوں نے صدر ٹرمپ سے کہا کہ وہ مودی پر مقبوضہ کشمیر میں دو ہفتوں سے جاری کرفیو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کریں جس نے مقبوضہ کشمیر کو بند پنجرے میں تبدیل کر دیا ہے۔ دوسری طرف غاصب فوج نے مقبوضہ کشمیر میں پرائمری سکول کھلوانے کی ناکام کوشش کی۔ اساتذہ کو سنگینوں کے سائے تلے سکولوں میں لایا گیا لیکن والدین نے موجودہ صورتحال کے خاتمے تک بچوں کو سکول بھیجنے سے صاف انکار کر دیا۔ غاصب فوج نے اس سلسلے میں خواتین سے دست درازی بھی کی۔ اُدھر کرفیو کے باوجود حریت پسندوں کے مظاہرے جاری ہیں۔ دریں اثنا کنٹرول لائن پر فائرنگ روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ گزشتہ روز کی فائرنگ سے سات سالہ بچہ شہید ہو گیا، جس پر بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ طلب کر کے بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ اور بچے کی شہادت پر شدید احتجاج کیا گیا۔ مزید برآں بھارت نے پاکستان کی فصلوں اور دیہی معیشت کو تباہ کرنے کیلئے آبی جارحیت کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ ستلج میں دو لاکھ کیوسک کے ریلے کی آمد کا خدشہ ہے۔ راوی کی قریبی آبادیوں کو محفوظ جگہوں پر منتقل کیا جا رہا ہے اور اس ضمن میں امدادی کارروائیوں کیلئے فوج طلب کر لی گئی ہے۔
بھارت نے نہ صرف کشمیر کو ہڑپ کرنے کیلئے پورے خِطے کو عدمِ استحکام سے دوچار کیا بلکہ اسے ایٹمی جنگ میں جھونکنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر اب تک خطہ مسلح تصادم سے بچا ہوا ہے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستان بھارت کی ساری زیادتیوں کے باوجود صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اگر بھارت نے پاکستان کو دیوار سے لگانے کے مذموم منصوبے جاری رکھے تو پھر پاکستان کا صبر کا پیمانہ چھلک سکتا ہے اور اس کے جو سنگین نتائج نکلیں گے اور بربادی و تباہی آئیگی، اُسکے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ وزیر اعظم مودی کو سمجھانے بجھانے کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن بھارت سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ اس کی طرف سے پوری طرح جنگ کے حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں ، ان حالات میں اقوام متحدہ اور امریکی صدر ٹرمپ ٹھوس اقدامات کریں ورنہ مودی اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی آزمائش کیلئے بہت بے تاب ہو رہا ہے۔ خدانخواستہ اگر ایٹمی ہتھیار چل گئے تو جنوبی ایشیا کو دُنیا کے نقشے سے غائب سمجھئے اور اُس کی ذمہ داری مودی کے ساتھ ساتھ عالمی برادری پر بھی ہو گی جو محض بھارت کو خوش کرنے کیلئے صورتحال کو سنجیدہ نہیں لے رہی۔