جسٹس قاضی فائز کیخلاف ایک ریفرنس خارج
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز کے خلاف دائر دو ریفرنسز میں سے ایک ریفرنس ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے، کونسل نے ریفرنس دائر کرنے والے انفارمنٹ وکیل وحید شہزاد بٹ کا موقف سننے کے بعد ریفرنس ختم کرنے کا دس صفحات پر مشتمل مفصل فیصلہ سنایا۔
عدالت عظمیٰ کے فاضل جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ان کی فیملی کے اثاثوں کے حوالے سے ریفرنس صدر مملکت کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایا گیا، اس پر وکلاء کے ایک حصے نے شدید احتجاج کیا، جلسے بھی کئے اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چلنے نہ دینے کا اعلان کیا گیا ۔ عدالتوں کو تالے لگانے اور ریفرنس کو جلانے اور عدلیہ کا بائیکاٹ کرنے تک کی باتیں ہوتی رہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے موقع احتجاجی وکلا احاطہ عدالت میں نعرے بازی کرتے بھی رہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنس دائر ہونے پر صدر کو ایک خط لکھ کر ریفرنس کے مندرجات بارے کچھ استفسارات کئے تھے۔ اس خط پر لاہور کے ایک وکیل نے قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کا ریفرنس دائر کر دیا جو گزشتہ روز سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے یہ کہہ کر خارج کر دیا گیا کہ خط لکھنے کے وقت جسٹس فائز پریشانی یا سٹریس کا شکار تھے کیونکہ ان کے سسر کی طبیعت خراب تھی جبکہ صدارتی ریفرنس میڈیا میں آنے کے بعد انکی بیٹی بھی ذہنی تنائو کی کیفیت میں تھیں۔ مزید براں انفارمنٹ وکیل ایسا کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ جسٹس فائز نے صدر مملکت کو لکھے گئے خطوط میڈیا کو فراہم کیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فاضل جج کی طرف سے صدر کو لکھے گئے خط اتنے سنگین نہیں ہیں کہ انکی بنیاد پر مس کنڈکٹ کی کارروائی کر کے سپریم کورٹ کے ایک جج کو عہدے سے ہٹایا جا سکے۔ سپریم جوڈیشل کونسل پر کچھ وکلاء تعصب کے الزام لگاتے رہے ہیں۔ آج عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار ہے۔ اسکی طرف سے فیصلوں میں جانبداری کا شائبہ تک نہیں ہے جس کا ایک اور ثبوت قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک ریفرنس کا اخراج ہے۔ دوسرے ریفرنس میں انکے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہ ہوئے تو وہ بھی خارج ہوسکتا ہے لہٰذا وکلاء اپنی عدلیہ پر اعتماد کرتے ہوئے مزید احتجاج کا سلسلہ ترک کردیں تاکہ بہتر ماحول میں ریفرنس کی سماعت ہو سکے۔