بدھ ‘ 19؍ ذی الحج 1440ھ ‘ 21 ؍ اگست 2019 ء
اے پی سی شہباز کے کردار اور بلاول کے دورے کی نذر ہو گئی۔ فردوس عاشق
بظاہر وزیراعظم کی مشیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان قدرے کرخت مزاج کی نظر آتی ہیں۔ بات کرتے ہوئے بھی ان کا لہجہ شگفتگی سے کوسوں دور ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کبھی کبھی وہ ایسے جملے بھی بول ہی دیتی ہیں جو تادیر یاد رہتے ہیں۔ ان جملوں سے پتہ چلتا ہے کہ موصوفہ میں کچھ نہ کچھ شگفتگی بھی پائی جاتی ہے یا یہ کہ وہ حس مزاح بھی رکھتی ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں گزشتہ روز انہوں نے اے پی سی یعنی آل پارٹیز کانفرنس کا ردیف قافیہ کہاں سے لا کر کہاں جوڑا۔ وہ بھی ایسا کہ ٹانکا فٹ بیٹھتا نظر آتا ہے۔ اے پی سی کو انہوں نے ’’آئو آپس میں سیاست کریں‘‘ کا نام دیا جو بذات خود اور لطیف پیرائے کا مذاق ہے۔ مگر ساتھ ہی زبردست قسم کا بیان بھی جاری کر دیا کہ ’’اے پی سی شہباز شریف کی کمر درد اور بلاول زرداری کے دورے کی نذر ہو گئی ہے‘‘ کیونکہ دونوں اہم رہنما اس میں شریک نہیں تھے۔ اس پر تو اب حکومت کو نذر نیاز کا اہتمام کرنا چاہئے کہ اس کو درپیش خطرہ خودبخود درد کمر اور دورے کی وجہ سے دور ہوا ہے۔ ورنہ خوف سا ہی تھا کہ اے پی سی میں کیا ہو گا۔ اب تو ہماری اپوزیشن والی اے پی سی میں کیا رہ گیا ہے۔ وہ تو ہو بہو اسلامی ممالک والی ’’او آئی سی‘‘ کا چربہ بنتی جا رہی ہے جس میں بھاری بھرکم ممالک کے باوجود اور اس میں بھاری بھرکم سیاسی جماعتوں کے باوجود کچھ کرنے کی ہمت نہیں۔
٭٭٭٭٭٭
عدنان سمیع نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے دیا
ایسے ہوتے ہیں میر جعفر اور میر صادق کی نسل سے تعلق رکھنے والے بے ضمیر لوگ۔ ان میں اگر رتی بھر غیرت ہوتی تو یہ اپنی مادر وطن کی عزت کا ہی پاس کرتے ۔ لگتا ہے بھارت میں گائو ماتا کا امرت پینے کے بعد عدنان سمیع کی بدھی بھی کھو ہو گئی ہے۔ ایک پڑھا لکھا انسان ہونے کے باوجود وہ صرف بھارت کے حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے ایسی بات زبان سے نکال رہا ہے جو مکمل جھوٹ ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہوئے بھی شرمسار نہیں۔ یہی اس کی کم مائیگی اور گھٹیا سوچ کی علامت ہے۔ سانڈ جیسے سر والے اس انسان کا سر عقل سے مکمل خالی لگتا ہے۔ اس سے لاکھ درجہ بہتر انسان ہونے کا مظاہرہ دھان پان سی ہندو اداکارہ سونم کپور نے کیا ہے جس نے لاکھ خطرات کے باوجود کھل کر کشمیر کی صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس کے جواب میں اسے بھارتی انتہا پسندوں نے پاکستان کا حامی کہا گیا۔ افسوس کی بات یہی ہے کہ ایک سابق پاکستانی کو ایسے سچ بولنا نصیب نہیں ہوا۔ شاید یہ بڑے نصیب کی بات ہوتی ہے کہ انسان تمام تر خوف کے باوجود سچ بولتا ہے۔ اس سے لاکھ بہتر تھا کہ یہ ننگ وطن شخص خاموش رہتا۔ اس سے کس نے پوچھنا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ وہ غداری وطن کے صلے میں بھارتی شہریت اختیار کر چکا ہے اور اب اپنی وفاداری ثابت کرتا پھر رہاہے۔
٭٭٭٭
جیالے نے 70 کنال اراضی بلاول کے نام کر دی
لو جی کرلو گل۔ اب کوئی بولے کہ نہ بولے۔ اور بولے تو کیا بولے۔ ایک طرف زرداری خاندان کے خلاف نیب سے لے کر اینٹی کرپشن تک میں ناجائز اثاثوں، بے نامی اکائونٹس اور نجانے کون کون سے کیس چل رہے ہیں۔ آصف زرداری ، فریال تالپور، بلاول زرداری تک کے نام عدالتوں میں ’’حاضر ہوں‘‘ کی شکل میںگونج رہے ہیں ایسے میں اب اس جیالے کو کس نے یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنی 70 کنال اراضی بلاول کو تحفے میں دے۔ وہ بھی گلگت بلتستان جیسی جنت ارضی میں۔ یہ جیالے کی محبت کہیں بلاول کے لیے کوئی نیا درد سر نہ بن جائے۔ پہلے ہی ان لوگوں کی بے بہا دولت اور اراضی کے قصے قیمتی ہیروں کے ہار سے لے کر سرے محل اور لاہور کراچی اسلام آباد کے جدید بلاول ہائوس نامی محلات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اب کہیں وہ جیالا خود بھی ٹیکس والوں یا نیب والوں کے ہتھے نہ چڑھ جائے جو اس سے اس اراضی کا حساب اور ٹیکسوں کے گوشوارے مانگتے نظر آئیں۔ بات جو بھی ہو یہ ضرور ہے کہ جیالے آج بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی رنگ میں موجود نظر آتے ہیں ورنہ اتنا حوصلہ کس میں ہوتا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کو بنی گالہ کا محل کسی کارکن نے نہیں نذر نہیں کیا بقول ان کے یہ 300 کنال کا محل ان کی سابقہ بیگم کی طرف سے انہیں تحفے میں ملا ہے۔
٭٭٭٭٭
مودی کو دورہ عرب امارات میں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا جائے گا
ابیہ تو عرب امارات والے ہی جانتے ہوں گے کہ مودی نے ایسی کون سی قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں سوائے مسلمانوں کے قتل عام کے کہ انہیں یہ اعلیٰ سول ایوارڈ آرڈر آف زاید عطا کیا جا رہا ہے۔ کیامودی نے عربی زبان و ادب پر کوئی اعلیٰ تحقیقاتی کتاب لکھی ہے یا متحدہ عرب امارات کی تاریخ و جغرافیہ پر کوئی موثر اور مدلل مقالہ لکھا ہے۔ ہو سکتا ہے مودی نے عرب امارات کی معاشی ترقی میں وہاں کے حکمرانوں کا خوب ہاتھ بٹایا ہو۔ جس کے جواب میں مودی کو یہ ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھارت کے حکمرانوں اور ہندوئوں کے ساتھ دوستی اور نرم دلی کوئی نئی بات نہیں ایک دوبرس قبل کی بات ہے کہ وہاں کے حکمرانوں نے نہایت کمال بھارت نوازی ہی نہیں ہندومت سے محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک عالیشان مندر بھی بنایا ہے جہاں پوجا پاٹ ہوتی ہے۔ بات مسلمانوں کی نرم دلی اور اقلیتوں سے محبت کی ہو تو مندر کے قیام پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہ جو بھارتی مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے، قاتل ہے جسے بھارت کے مسلمان ’’گجرات کا قصائی‘‘ کہتے ہیں کیونکہ اس نے وہاں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کرایا اور کہا کہ کتا گاڑی کے تلے آ کر مرے تو شور نہیں کرتے۔ اب اس قاتل کے ہاتھ ہزاروںکشمیری مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں وہ ایک مسلم اکثریتی ریاست کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے چلا ہے۔ اس مسلم دشمن کو عرب امارات کا اعلیٰ ایوارڈ کیوں دیا جا رہا ہے۔ اس کا تو دورہ منسوخ کرنا چاہئے تاکہ اسے اپنی غلطی کا احساس ہو۔ مگر آج مسلم امہ خود مسلمانوں کی بربادی پر خاموش ہے۔ ورنہ یہی اسلامی ملک بھارت کے تجارتی اور سیاسی بائیکاٹ کا صرف اعلان ہی کر د یں تو مسئلہ کشمیر منٹوں میں حل ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭