پاکستان کی انتخابی سیاست ابھی تک جمہوری بلوغت کے مقام تک نہیں پہنچ پائی۔ انتخابات سے پہلے جب سیاسی جماعتیں عوام کے ووٹ لینے اور انتخاب جیتنے کے لیے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں تو ان کو حکومت کی معاشی صورتحال اور انتظامی امور کا مکمل علم ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنے پارٹی منشور کے مطابق مجوزہ اصلاحات کے سلسلے میں کوئی ہوم ورک کرتی ہیں۔ جب کوئی سیاسی جماعت اپنے بلند بانگ دعوئوں کی بنیاد پر انتخاب جیت کر اقتدار سنبھال لیتی ہے تو اسے سرکاری سطح پر بریفنگ دی جاتی ہے اور نئی حکومت کو ریاست کے اصل حالات کا علم ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے لیڈروں کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کو پاکستان کی معاشی صورتحال کا پورا اندازہ نہیں تھا اور اقتدار میں آنے کے بعد جب ریاست کے معاشی حقائق ان کے سامنے رکھے گئے تو وہ حیران اور ششدر ہو کر رہ گئے اور انہیں مجبوراً ایسے فیصلے کرنے پڑے جو ان کے انتخابی منشور اور دعوئوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے لہٰذا معاشی جبر کے تحت کئے گئے فیصلوں سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان نے عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خود کشی کر لیں گے مگر جب وہ وزیراعظم منتخب ہوگئے تو ان کو معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا ناخوشگوار فیصلہ کرنا پڑا، اپنے اس فیصلے کو انہوں نے یہ کہہ کر درست قرار دے دیا کہ ہر دانش مند بڑا لیڈر قوم کے مفاد میں حالات کو دیکھتے ہوئے ہی یوٹرن لیتا ہے۔ تحریک انصاف کے پاس چونکہ حکومت بنانے کے لیے پوری پارلیمانی طاقت موجود نہیں تھی، اس لیے اسے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر کے مخلوط حکومت بنانی پڑی اور پالیسیوں پر سمجھوتے کرنے پڑے۔
وزیراعظم کی مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے حکومت کی ایک سال کی کار کردگی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی اور دعویٰ کیا ہے کہ سنگین مشکلات کے باوجود حکومت ایک سال کے دوران ریاست کو درست ٹریک پر پر ڈالنے میں کامیاب رہی ہے اور اس نے وہ تمام اصلاحات نافذ کی ہیں جو ریاست کو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے بہت ضروری تھیں۔ جن پر گزشتہ حکومتوں نے کوئی توجہ نہیں دی تھی جس کے نتیجے میں ریاست جمود کا شکار تھی جبکہ پاکستان کے عوام خود مشاہدہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کی ریاست خارجہ اور داخلہ امور میں فعال اور متحرک نظر آ رہی ہے۔ پاکستان کی سفارتی سطح پر کامیابیاں بڑی خوش آئند ہیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ گزشتہ حکومت نے کل وقتی وزیر خارجہ تعینات نہ کر کے ریاست کو نقصان پہنچایا تھا جبکہ موجودہ حکومت کے متحرک اور فعال وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی کی بہترین سفارتکاری کی وجہ سے اور وزیراعظم کی دلچسپی اور سر پرستی کی بنا پر خارجہ امور میں قابل ستائش کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں اور کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر عالمی سطح پر اُجاگر کر دیا گیا ہے۔ مشیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت نے غربت کے خاتمے کے لیے احساس پروگرام شروع کیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے غریب عوام کو عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا حق مل جائے گا۔ حکومت نے کم آمدنی والے لوگوں کے لئے صحت کارڈ بھی جاری کیے ہیں تاکہ وہ ہسپتالوں میں معیاری علاج کی سہولتیں حاصل کرسکیں۔ حکومت نے اربوں روپے کی ہاؤسنگ سکیم بھی جاری کی ہے جس سے نہ صرف سرمایہ کاری اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا بلکہ بے گھر خاندانوں کو آسان قسطوں پر گھر بھی مہیا کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پانی اور بجلی کی وزارت نے بجلی چوری کو روک کر اربوں روپے بچائے ہیں جو قومی خزانے میں جمع کرائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور مہارت کے لئے مختلف پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ دباؤ کے باوجود احتساب کا عمل جاری ہے جسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ سی پیک کے منصوبوں کو آگے بڑھایا گیا ہے فاٹا میں انتخابات کرائے گئے ہیں جب کہ ریلوے کے خسارے کو کم کیا گیا ہے اور نئی گاڑیاں چلا کر لاکھوں مسافروں کو ریلوے پر سفر کی سہولتیں فراہم کی گئیں ہیں۔ حکومت کا پہلا سال استحکام پاکستان کا سال ہے جبکہ اگلا سال تعمیر پاکستان کا سال ہوگا۔
پاکستان کی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ نون اور پی پی پی نے تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سال کو پاکستان کے عوام کے لئے مشکل ترین سال قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ایک سال کے اندر غربت افراط زر مہنگائی میں ہوشربا اضافہ روپے کی قیمت میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ حکومت نے گذشتہ سالوں کی نسبت حکومتی اخراجات کے لئے سو ارب روپے زیادہ خرچ کیے ہیں جبکہ سات ہزارچھ سوارب روپے کا ریکارڈ قرضہ لیاگیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک سال کے اندر اتنے یوٹرن لیے ہیں کہ پاکستان کے کسی وزیراعظم نے نہیں لئے ہوں گے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا ہے، بجلی اور گیس کے بلوں اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کی زندگیاں اجیرن ہوچکی ہیں۔ حکومت عوام کو گڈگورننس دینے میں بھی ناکام رہی ہے۔ عمران خان نے پاکستانی قوم سے جتنے وعدے کیے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی وعدہ ابھی تک پورا نہیں کیا گیا۔ ایک سال کے اندر وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی نہیں بنایا جا سکا۔ ٹیکس ریونیو میں اضافہ نہیں ہو سکا اور نہ ہی لوگوں کے لیے کوئی ایک گھر تعمیر کیا گیا ہے اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا جاسکا۔ پشاور میٹرو ابھی تک مکمل نہیں کی جا سکی۔ سی پیک کے منصوبوں پر عملدرآمد سست روی کا شکار ہے، پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی کیلئے خصوصی پیکیج نہیں دیا گیا۔ پولیس کا نظام وعدے کے مطابق تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ بقول حبیب جالب…؎
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وزیراعظم پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی ہے۔ وزیراعظم کے نوٹیفکیشن کے مطابق یہ توسیع خطے میں قومی سلامتی کو لاحق چیلنجوں کی روشنی میں کی گئی ہے۔ وزیراعظم کا یہ فیصلہ خوش آئند اور ریاست کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران پاک فوج اور حکومت کے درمیان اشتراک اور مفاہمت بے مثال رہی ہے جس کے مثبت اورسودمند نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ایک ماہ قبل قومی سلامتی اور معاشی استحکام کے لیے جو قومی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ اس میں پہلی بار آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو شامل کیا گیا تھا۔ پاک فوج کی قیادت امریکی دورے کے دوران وزیراعظم پاکستان کے ہمراہ تھی۔ عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان جو اعتماد اور مفاہمت موجود تھی اس کی روشنی میں صاف نظر آ رہا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی آئینی مدت میں توسیع کر دی جائے گی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو طاقتور عالمی قوتوں چین روس امریکہ سعودی عرب اور یو اے ای کی پسندیدگی بھی حاصل ہے۔ انہوں نے افغان مسئلے کے حل کے لیے مثبت اور جامع پیشرفت کی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا گزشتہ تین سال کا پیشہ وارانہ ریکارڈ اور کارکردگی اطمینان بخش رہی ہے۔ ان کا "باجوہ ڈاکٹرائن " کامیاب رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران پاک فوج کا کردار قابل ستائش رہا ہے۔ قومی مفاد کا تقاضہ یہی تھا کہ حکومت اور پاک فوج کا اشتراک اور اعتماد جاری و ساری رہے اور پاک فوج کی کمان ان حالات میں تبدیل نہ کی جائے جب کہ پاکستان اپنی سلامتی کی جنگ لڑ رہا ہے اور اسے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ آنے والے تین سال پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت میں تین سال کی توسیع کے بعد پاکستان کے عوام مطمئن اور پر سکون ہوں گے کہ سی پیک کے منصوبے تکمیل کو پہنچیں گے پاکستان سنگین معاشی بحران سے باہر نکل آئے گا۔ احتساب کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا اور لوٹی ہوئی قومی دولت قومی خزانے میں جمع کرائی جائے گی۔ افغانستان میں امن کی کوششیں کامیاب ہوں گی اور کشمیر کا تنازعہ کشمیری بھائیوں کی تمناؤں کے مطابق پروقار اور آبرومندانہ طریقے سے حل کرا لیا جائے گا۔ اللہ کرے آرمی چیف کی مدت میں تین سال کی توسیع پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کے لئے نیک فال ثابت ہو اور حکومت و فوج کے درمیان اعتماد اور اشتراک عوام کو عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا حق دینے کے لئے سازگار اور معاون ثابت ہو۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024