بھارت میں مسلمانوں کیساتھ سپین والا وحشیانہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔ 5 صدیوں بعد سپین کی تاریخ آج ہندوستان کے گلی کوچوں میں دہرائی جارہی ہے جس کے آخری مرحلے میں مسلم اکثریتی متنازعہ علاقے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو انتظامی اقدامات اور اسلحے کے بل بوتے پر اقلیت میں بدلنے کا گھنائونا کام شروع کردیا گیا ہے ۔مودی کے سلامتی امور کے مشیر اجیت کمار ڈؤل نے سپین میں مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر طویل تحقیق کرائی ہے جس پر اب بھارت میں عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ کانگریسی مسلمانوں کی اولاد پر جنونی ہندو اب آبرو مندانہ زندگی کے دروازے بند کرتے جارہے ہیں اوروہ بے بسی سے ہاتھ مل رہے ہیں۔
سپین میں مسلمانوں کا اقتدار 712 سے 1492ء تک یعنی 780 سال تک قائم رہا۔ حیرت ہے اتنے طویل عرصے تک حکمرانی کے باوجود سپین میں آج ایک بھی مقامی مسلمان نہیں پایا جاتا، اگرچہ سپین کی طرزمعاشرت کے ہر انگ پر اسلام کا رنگ اور اثر صدیاں گذرنے کے بعد بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ سپینی زبان کی لغت اور بول چال میں عربی الفاظ جلوہ گر ہیں۔ سپین کے سازوآواز میں عربی دھن صاف محسوس ہوجاتی ہے۔ اسکی ثقافت پرمغرب سے زیادہ عرب رنگ غالب ہے۔ سپین کی زبان میں ’اسم‘ میں سابقے عربی کے ’اَل‘ کی صورت اکثر دیکھے جاسکتے ہیں۔1492 کے بعد سے جب مسلمانوں کی سیاسی طاقت کا آخری گڑھ غرناطہ (گریناڈا) کا بھی سقوط ہوگیا تو سپین کے مسلمانوں کا زوال شروع ہوگیا۔ یہ تنزلی 120 سال بعد اپنے عروج پراس وقت پہنچی جب 1612 میں مسلمانوں کا آخری قافلہ سپین چھوڑ کر روانہ ہوگیا۔
علامہ اقبال نے اپنی وفات سے پانچ سال پہلے 1933ء میں مسجد قرطبہ نظم لکھی تھی۔ 785ء میں عبدالرحمن اول نے یہ مسجد تعمیر کرائی تھی۔ گرجا گھر میں بدلے جانے کے بعد علامہ اقبال نے فن تعمیر کے اس شاہکار کا دورہ کیاتھا۔ وہ خوش تھے کہ یہاں نماز اداکرنے کا موقع ملا ورنہ ہسپانوی حکام نے اسکی سختی سے ممانعت کررکھی تھی۔اہم نکتہ یہ ہے کہ جب سپین میں مسلمانوں کا زوال ہوا تو پوری مہذب دنیا میں مسلمان حکمران تھے۔ عثمانی ترکوں نے 1553ء میں قسطنطنیہ فتح کرلیا تھا اور جزیرہ نما بلقان پر بھی حکمران تھے۔ مصر پر غلام’ مملوکوں کی حکومت تھی۔ فارس عباسی حکمرانوں کا پایۂ تخت تھا۔ برصغیر مغلوں کی راجدھانی تھا۔ اس تمام منظرنامے کے باوجود سپین سے اسلام کا نام ونشان ہی مٹ گیا اور ان بڑی بڑی اسلامی فوجوں نے سپین کے مسلمانوں کو بچانے کیلئے کچھ نہ کیا۔
سپین سے اسلام اور مسلمانوں کا صفایا ہندو نسل پرستوں کی تحقیق کا بنیادی نکتہ رہا ہے۔ بھارتی ہندو انتہاپسندوں نے اس صدی کی وسطی دہائی میں سپین پر خاص تحقیق کی اور انہوں نے سپین والا طریقہ کار بھارت میں بھی اپنانے کے امکان پر سوچ بچار جاری رکھا۔ مسلمان حکمران بھی سپین کو مدنظر رکھ کر یہ مطالعہ کرتے آئے ہیں تاکہ وہ غلطیاں نہ دہرائیں جس کی بدولت انہیں اسی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا جس کا سپین میں مسلمان ہوچکے ہیں۔
بھارت میں 25 کروڑ مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں‘ بدقسمتی سے آج مسلمان سپین میں اپنے زوال کی تاریخ مکمل طورپر فراموش کر چکے ہیں۔1947 کے بعد بھارت میں صورتحال سے موازنہ کریں۔ سپین میں مسلمانوں کی جان ومال پر حملوں کا سلسلہ پچاس سال جاری رہا، اسکی شدت گو کہ کم رہی لیکن اس کا پھیلائو زیادہ تھا جیساکہ آج بھارت میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ابتدا کے برسوں میں مسلمانوں نے ان حملوں کا مقابلہ کیا اور مزاحمت کی۔ گلیوں میں نسبتاً چھوٹے پیمانے کی جنگیں دیکھنے میں آئیں۔ پھر معاملہ یک طرفہ حملوں تک محدود ہوگیا جس میں نقصان ہمیشہ مسلمانوں کا ہوا۔ پھر ہندوپولیس ہی مسلمانوں کو قتل کرنے کیلئے کافی ہوگئی۔
منظم مسیحی گروہ جب بڑے پیمانے پر قتل عام کررہے تھے، بادشاہ فرڈیننڈ کی حکومت نے سپین میں مسلمانوں کو نوکریوں سے نکالنے اور انکا صفایا کرنے کیلئے اقدامات کئے۔ سب سے پہلے انتظامیہ سے عربی زبان ختم کردی گئی۔ مساجد سے منسلک سکول ختم کردئیے گئے۔ اساتذہ کے پڑھانے پر پابندی لگادی گئی اور انہیں سائنس، تاریخ، ریاضی اور فلسفہ جیسے سیکولر مضامین پڑھانے کا حکم دیاگیا۔ مذہبی تعلیم صرف تاریخ کے اسباق میں پڑھانے کی اجازت تھی جس میں اسلامی دور اقتدار کو ظالمانہ، وحشیانہ قرار دیاگیا۔ سپین کی ترقی کیلئے مسلمانوں نے کیا کیا، وہ سب غائب کردیاگیا۔ مسلمان گھروں میں تلاشی کا سلسلہ جاری رہتا، پولیس اکثر وہاں اسلحہ اور خفیہ اجلاسوں کے نام پر چھاپے مارتی۔
اصل عرب مسلمانوں کو مسیحیوں کا دشمن قرار دیاگیا جنہوں نے سپین کو تباہ کیا۔ جن مسیحیوں نے اسلام قبول کرلیاتھا، ان پر دبائو ڈالا جانے لگا کہ وہ اپنے پرانے مذہب میں واپس آجائیں۔ مسلمان اور مسیحی والدین کے بچوں کو گالیوں، طعنوں اور مذاق کا نشانہ بنایاجاتا کہ وہ مسیحی ہوجائیں۔ اسلامی طرز پر ہونے والی شادیوں پر پابندی تھی کہ وہ عدالتی افسران کے پاس اپنی رجسٹریشن کرائیں۔ اسلامی قوانین کو غیرقانونی قرار دے دیاگیا۔ (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024