سراج لکھنوی کا شعر ہے …؎
ہو گیا آئنہ حال بھی گرد آلودہ
گود میں لاشئہ ماضی کو لیے بیٹھا ہوں
دو ہفتے سے جو کالم لکھ نہیں پایا اْسکی چند وجوہات میں سے جو سب سے بڑی وجہ بن رہی ہے وہ سوشل میڈیا پر میرے اْن دوستوں کا ردِعمل ہے جو صرف اور صرف اپنی مرضی، اپنے مزاج اور اپنی خواہشات کے مطابق بات سْننا اور پڑھنا چاہتے ہیں۔ ذاتی پسند اور ناپسند ہر شخص کی ہوتی ہے اور اگر کوئی یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ اس صفت سے مبرا ہے تو یہ حقیقت کے برعکس بہت بڑا جھوٹ ہے۔ میری بھی ذاتی پسند ناپسند اور ذاتی دوستیاں ہیں لیکن خْدا گواہ ہے کہ جب بھی کالم لکھنے بیٹھا ہوں یا سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ لگائی ہے تو حتی الامکان یہ کوشش رہی ہے کہ لکھتے وقت اس پسند ناپسند کے چکروں سے آزاد رہ کر حقائق کی روشنی میں سچ لکھ دیا جائے۔ لیکن شائد ہمارے سماج اور کلچر میں اب یہ بات المیہ سے بھی بڑا ڈرونا خواب بن چکی ہے کہ ہمارا سماج اختلاف کی ان دو ایسی انتہاؤں میں بٹ چکا ہے جہاں ہر سو فریق اپنی مرضی کا سچ سْننا چاہتا ہے اور اسکی فکری سوچ اس حد تک مفلوج ہو چکی ہے کہ جب وہ کسی ایسی تحریر سے ذہنی تسکین نہیں پا سکتا تو وہ پھر تنقیدی نشتر برساتے ایسی ایسی خرافات بول جاتا ہے جس سے دوسرے کی دل آزاری اور عزت نفس تو مجروح ہونا الگ بات ناقد شائد وہ خود اس بات کا ادراک نہیں کر پاتا کہ بقول ہمارے ایک دوست صولت رضا جنکا شمار انتہائی باذوق اور دانش کدے کے عظیم مفکروں میں ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر اسکی گفتگو اور انداز تحریر کس سادگی کے ساتھ اسکا اپنا خاندانی پس منظر اور منی سورس واضع کر رہا ہوتا ہے۔ شائد شخصیت پرستی کی قید میں اسیر اندھی تقلید کے پْجاری اور اسکے ساتھ ساتھ بْغض جیسی لعنت میں گرفتار اس حقیقت کو سمجھ سکیں کہ یہ بیماری صرف ہمارے معاشرے ہمارے ملک ہمارے سماج ہماری رشتہ داریوں کو ہی نہیں کھا جائیگی بلکہ یہ ہمارے جسم ہماری روح کو بھی گھائل کر جائیگی۔ پسندیدگی الفت چاہت کا اظہار ضرور کریں لیکن بْت پرستی کی حد تک نہ جائیں تنقید ضرور کریں ایسی تنقید جس سے بْغض کا اظہار نہ ہو۔ ابھی کال کی بات ہے سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس کے بعد چائنا کے مندوب کے بیان کی روشنی میں جو صورتحال واضع ہوئی بظاہر پاکستان کے نقطہ نظر کے سباق میں وہ ایک اہم بات تھی کہ کشمیر میں ہندوستان کے آئین میں آرٹیکل 35 A اور 370 کے حوالے سے وہاں کی حکومت نے جو یکطرفہ اقدام اْٹھایا ہے عالمی فورم پر اسکی صحت سے انکار کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی معاہدوں کی موجودگی میں ایک تصفیہ طلب مسئلہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس پر راقم نے ایک پوسٹ لگائی کہ " بغیر کسی بْغض کے یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ سفارتی محاذ پر حکومت پاکستان کو آج بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے"۔ پوسٹ لگنے کی دیر تھی کہ دونوں انتہاؤں کے تیر باز اپنی کمانیں لے کر نکل پڑے۔ کچھ نے لفافہ ازم کا سٹکر لگا کر دامن داغدار کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف والوں نے جنکی ذہنی بلوغت کیمطابق یہ پوسٹ انکے حق میں تھی اْنھوں نے استقبالیہ جملوں میں یہاں تک کہہ دیا کہ مشرف بہ اسلام ہونے پر آپکو مبارک دی جاتی ہے۔ذرا اندازہ کیجئے اس طرز گفتگو کا کہ جہاں مذہبی پہچان بھی سیاسی وابستگی سے منسوب کر دی جائے۔ ایسے میں ہم خْدا کے عذاب کو دعوت نہیں دے رہے تو کیا کر رہے ہیں۔ اسی طرح جس دن بھارت کی طرف سے ان دو آرٹیکلز کے حوالے سے یہ گھناؤنا اقدام اْٹھایا گیا اْس دن ایک پوسٹ میں راقم نے 23 مئی کو اپنی سوشل میڈیا وال پر لگنے والی ایک پوسٹ کا حوالہ دیا جس میں راقم نے لکھا تھا کہ "روحانی دنیا کے لوگ ہندوستان کے حوالے سے جولائی یا اگست کے مہینے میں کچھ الگ ہوتا دیکھ رہے ہیں"۔ اس پوسٹ کی بنیادی وجہ دراصل ہمارے وزیراعظم عمران خان کا وہ بیان تھا جس میں اْنھوں نے اس یقین کا اظہار کیا تھا کہ اگر مودی الیکشن جیت گیا تو وہ مسئلہ کشمیر حل کر دیگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بطور وزیراعظم جن حالات اور حقائق کا اسے علم ہے اسکی روشنی میں اسکا ایک اپنا وژن ہے لیکن میں جن اولیاء اللہ اور دانشوروں کی جوتیاں سیدھی کرتا ہوں انکے وژن کی روشنی میں صرف اتنا ذکر کیا تھا کہ روحانی دنیا کے لوگ اپنے وژن میں کچھ اور دیکھ رہے ہیں۔ بس یہ پوسٹ لگنے کی دیر تھی کچھ نے ذاتی تشہیر بازی کے طعنوں سے نوازا تو کچھ نے اسے ظل الٰہی کی توہین سے تعبیر کیا۔ اس ساری گفتگو کا حاصل مقصود صرف یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں اس سطحی سوچ سے نکلنا ہو گا کہ ہماری مرضی کا سچ بولا جائے۔ ہمیں حقائق کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ مت بھولیں سویت یونین بھی ایٹمی طاقت تھی اسکے پاس بھی بہت مضبوط فوج تھی لیکن جب اسکی معیشت کمزور پڑی اور وہاں علاقائی تشخص نے زور پکڑا تو سویت یونین پارہ پارہ ہو گیا۔ ہمارے ہاں حقائق بہت تلخ ہیں پوری دنیا میں انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ اپنا انتہائی گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہے جس پر انشاء اللہ بہت جلد بات ہو گی۔ مختلف جگہوں پر اپنی مرضی کے ہم خیال انجینرڈ حکمران نافذ کیے جا رہے ہیں جن میں رعونیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے برطانیہ میں بورس جانسن کی حالیہ تبدیلی اسکی واضح مثال ہے۔ پوری دنیا میں کساد بازاری کا طوفان آنے کو ہے جسکے بہت ہی بھیانک نتائج سامنے آئینگے گو کہ ہم پہلے ہی اس چکی میں بری طرح پس رہے ہیں لیکن جو خطرہ اور اندیشہ دل کو کھائے جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کساد بازاری کا طوفان بہت سے ممالک میں اندرونی خلفشار کو ہوا دیگا اور پھر انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ امداد اور امن کے نام پر اپنے گھناونے عزائم کی تکمیل کا کھیل کھیلے گی۔ یہی اصل سچ ہے۔ باقی آپ اپنی مرضی کا سچ تلاش کر سکتے ہیں ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024