سید عطاء اللہ شاہ بخاری۔۔۔ ایک نادر شخصیت
حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی انمول یاددوں کے تذکرے جس طرح اہل اسلام کے دلوں میں تازہ ہیں محسوس ہوتاہے کہ شاہ صاحب اب بھی ہم میں موجود ہیں حالانکہ انہیں اس عالم سئے رخصت ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ بیت چکاہے ، مگر یان کی یادوں کی خوشبوآج بھی سروسمن کی وسعتوں سے دارورسن کی حدوں تک پھیلی ہوئی ہے۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری 23 ستمبر1892ء میں صوبہ بہار(انڈیا) کے علاقہ پٹنہ میں پیداہوئے۔ خاندانی نجیب الطرفی ان کا مقدر بنی ۔ اوائل عمری میں ہی اردو زبان و بیان کے رموز سے بہرہ ورہوئے۔ علم کی پیاس پٹنہ سے امر تسر کے مردم خیز خطے میں لے آئی، تعلیم کو پہنچاہی چاہتی تھی کہ ہندوستان میں تحریک خلافت کا آغاز ہوگیا ۔ امر تسران دنوں سیاست کا مرکز تھا شاہ صاحب بھی سیاست کی تپش سے محفوظ نہ رہ سکے تعلیم کا سلسلہ موقوف کیا اور مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ شعلہ بار خطابت کا ملکہ قدرت نے وافر مقدار میں مہیا کر رکھا تھا بس اسے آگ دکھانے کی دیر تھی خلافت عثمانیہ کے نحیف ونزار وجود کو انگریزوں نے روند ڈالا تو سید عطاء اللہ شاہ بخاری برصغیر کے چپے چپے میں پہنچے اور انہوں نے اپنی آتشیں تقریروں سے فرنگی سرکار کے خلاف عوام الناس کے دلوں میں بغاوت کے شعلے بھڑ کادیے اسی تحریک خلافت میں ہی وہ پہلی مرتبہ عین عالم شباب میں جیل کی آزمائشوں میں ڈالے گئے اور قیدو بند کا یہ سلسلہ ایسا مضبوط ہواکہ پھر ان کی ساری زندگی’’ریل اور جیل‘‘ سے عبارت ہوگئی۔
1929ء میں اپنے ساتھیوں مولانا ظفر علی خان ، چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین، مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی، ماسٹر تاج الدین انصاری اور مولانا مظہر کے ساتھ مل کر برصغیر کی مقبو جماعت مجلس احرار اسلام کی بنیاد رکھی۔ 1930ء میں جب ان کی عمر محض اڑتیس بر تھی اپنے وقت کی عظیم دینی شخصیت علامہ سیدانور شاہ کا شمیری کی تجویز پر پانچ سو جید علماء کرام اور مشائخ نے ختم نبوت کے محاذ پر ان کو ’امیر شریعت‘ تسلیم کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور یوں متحدہ پنجاب شاہ صاحب کی مضطوط قیادت میں آگیا۔ پھر مجلس احرار اسلام نے ان کی رہنمائی میں بیسیوں معرکے سرکئے، جس کی تفصیلات تاریخ کا حصہ ہیں اور تاریخ کو ہم جیسے طالب علموں کی گواہی کی ضرورت نہیں ہے۔
شاہ صاحب برصغیر کی وہ واحد شخصیت تھے کہ جن کا احترام ہر طبقہ میں پایا جاتا تھا وہ جہاں حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی، حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی اور قطب الاقطاب حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری کی محبتوں کا مرکز تھے وہیں وہ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی اور مفتی اعظم مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی کی آنکھون کی ٹھنڈک بھی تھے شاہ صاحب یکساں طورپر مولانا ابوالکلام آزاد ، علامہ محمد اقبال اور مولا نا محمد علی جوہر کی عنایات اور ان کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے، مولانا ظفر علی خان، مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک جیسے کہنہ مشق صحافیوں ، مولانا غلام قادر گرامی ، حفیظ جالندھری، احسان دانش، احمد ندیم قاسمی، سیف الدین، حبیب جالب جیسے شاعروں اور ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، ڈاکٹر سید محمد عبداللہ پطرس بخاری علامہ طالوت ، نسیم حجازی جیسے ادیبوں کے شاہ صاحب کے ساتھ قریبی مراسم تھے ایک طرف وہ دینی حلقے کے محبوب تھے تو دوسری طرف اشتراکی رہنما کامریڈ محمد اشرف ، منشی احمد دین ، سبط حسن ، عبداللہ ملک بھی شاہ صاحب کی محفلوں کے رکن تھے۔
ان کے حسن سلوک سے بے شمار لوگوں کو ہدایت نصیب ہوئی۔ انہوں نے ایک داعی کا کردار ادا کیا اور داعی کسی سے نفرت نہیں کیا کرتا۔ آج عمل کی جگہ خود ساختہ نظریات کی شدت نے عموماً مذہبی رہنمائوں میں درشتی اور کرختفی پیدا کردی ہے بعض اوقات ان کے نا مناسب طرز سلوک سے دیگر طبقوں کے افراد ان کے قریب آنے سے گریز کرتے ہیں ممتاز نعت گو شاعر حافظ لدھیانوی شاہ صاحب کوملنے آئے۔ مغرب کی نماز کیلئے جماعت کھڑی ہوئی تو شاہ صاحب نے خود مصلیٰ امامت پر کھڑے ہونے کی بجائے فرمایا کہ آج ہم حافظ بیٹا کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ یہ حکم سن کر داڑھی منڈے نوجوان حافظ لدھیانوی کے بقول ان کا وجود کانپ کر رہ گیا لیکن چاروناچار ان کو شاہ صاحب سمیت بہت سے علماء کرام کی امامت کرنا پڑی۔ شاہ صاحب کے اس برتائو سے اگلے دن ہی حافظ لدھیانوی نے بغیر کسی کے کہنے کے داڑھی رکھ لی۔ افسوس کہ اب یہ حسن سلوک کہیں نظر نہیں آتا اور نئی نسل دین والوں سے دور ہوتی جارہی ہے ۔ شاہ صاحب فرماتے تھے کہ ’’ دوچیزوں نے دین کو نقصان پہنچایا ہے پہلی چیز دین سے تعصب اور دوسری دین میں تشدد ۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی چیز سے دین کی دعوت ختم ہوگئی ہے اور دوسری چیز سے نوجوان دین سے باغی ہورہے ہیں ‘‘۔
لوگوں کے عیبوں کی پر دہ پوشی شاہ صاحب کا عمر بھر شیوہ رہا۔ وہ خوبیوں پر نگاہ رکھتے اور کمزوریوں سے درگزر فرماتے تھے ایک مرتبہ رند مشرب شاعر احمید عدم ، شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ، عدم نشے میں تھے شاہ صاحب نے تاڑلیا مگر اپنے رویے سے محسوس تک نہ ہونے دیا کہ انہیں عدم کے مدہوش ہونے کا پتہ چل چکا ہے چائے بناکر پلائی اورپھر عدم کی جھوٹی پیالی میں چائے ڈال کر خود نوش فرمالی۔ جتنی دیر عدم حاضر رہے منہ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے تاکہ شاہ صاحب کو دخت رزکی بونہ پہنچے اور شاہ صاحب نے بھی ان سے اپنی محبت و شفقت میں بار برابر کمی نہ آنے دی۔ بلکہ عدم سے ان کا کلام سنتے اور داد دیتے رہے عدم کے چلے جانے کے بعد کسی شریک محفل نے کہاکہ شاہ صاحب اپ کو معلوم ہے کہ عدم نے شراب پی ہوئی تھی شاہ صاحب شدید غصے میں آگئے اور فرمایا کہ تم خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔ یادرکھو! کسی کے عیبوں پر پردہ ڈالنے سے اللہ تمہارے عیبوں پر بھی پردہ ڈال دے گا۔
ہر مکتبہ فکر نے شاہ صاحب کی وسعت ظرفی اور وسیع المشربی کی کی بدولت ان کو اپنے سر اور آنکھوں پر جگہ دی دل سے ان کا احترام کیا اور اس طرح وہ سب کیلئے عقیدت و محبت کا روشن مینارتھے اپنی بے مثال قوت لسانی ، فکرونظر کی پختگی اور حلم و تواضع کے پیش نظر وہ ہندوستان کی ہر دلعزیز شخصیت تھے مشہور انگریز مصنف ڈبلیو سی سمتھ نے شاہ صاحب کی ایسی ہی خصوصیات کے پیش نظر بجاطورپر لکھا تھا کہ ’’ یہ غیر معمولی انسان ہندوستان کی سب سے زیادہ اثر آفریں شخصیت ہونے کا نہایت قوی دعویٰ کرسکتا ہے‘‘
شاہ صاحب نے 21 اگست 1961ء کو ملتان میں رحلت فرمائی اور وہیں آسودہ خا ک ہیں اللہ ان کی قبر کو اپنی رحمتوں سے بھردے اور ان کا سچا نعم البدل عطا کرے جو انہی کی طرح تمام طبقات کو اتحاد و یگانگت کا آفاقی درس دے اور امت کو توحید و ختم نبوت کی اساس پریک جاکردے ۔ آمین