وزیراعظم عمران خان کا پہلا خطاب
وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان کا قوم سے پہلا خطاب کئی حوالوں سے منفرد تھا یہ خطاب سے زیادہ ایک فی البدیہہ ،بے ساختہ ،سادہ اور پرمغزگفتگو تھی جس کے دوران اعتماد سے بھری ایک قومی شخصیت اپنی قوم اور عالمی برادری سے مخاطب تھی جس کا ایک ایک لفظ اپنے اندر سچائی کی حلاوت لیے ہوئے تھا ہر پاکستانی کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ دراصل اس کے ہی جذبات ہیں جنہیں عمران خان اپنے الفاظ میں ڈھال کر تقریر کی صورت میں قوم کے سامنے پیش کر رہے ہیں جس کی تحسین اپنے تو اپنے‘ بیگانے بھی کر رہے ہیں اور یہی وہ مقام ہوتا ہے جو ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا تا ہم ایسے مقام کے حصول کے بعد لیڈر کی ذمہ داریاں بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہیں کیونکہ ان کی ذات سے وابستہ توقعات اتنی زیادہ اونچی ہو جاتی ہیں جنہیں پورا کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ ایسی توقعات ٹوٹنے سے بڑے بڑے لیڈر بھی گھبرا جاتے ہیں ۔
کفایت شعاری ،سادگی ،اداروں میں اصلاحات روشناس کرانا ،لوٹی ہوئی دولت واپس لانا ،ٹیکس کے نظام کو وسعت دینا ،بیوروکریسی میں فکر نو متعارف کرانا ،وزیر اعظم ہائوس اور گورنر ہائوسز کو تعلیمی اداروں میں بدلنا ،بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیو ں کو قومی بینکوں کے ذریعے ڈالرز بھیجنے کی درخواست کرنا،کرپشن کا پیسہ واپس وطن لانا ، ہر قسم کے مافیا پر ہاتھ ڈالنے کے عہد کی تجدید کرنا ،ہر قیمت پر بھاشا ڈیم بنانا، وزارت عظمیٰ کے دوران کوئی ذاتی کاروبار نہ کرنے کا اعلان کرنا ،ایف بی آر کو ٹھیک کرنا،جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے وعدہ کی تکمیل کرنا اورعدالتوں میں ایک سال کے اندر اندرفیصلوں کو یقینی بنانا جیسے اقدامات عمران خان کی تقریر دل پذیر کا اہم موضوع تھے جو حقیقت میں پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی بھی کر رہے تھے ۔
عمران خان ایک ایسے وقت میں پاکستا ن کے وزیر اعظم بنے ہیں جب ملک کو اندرونی و بیرونی محاذوں پر شدید مشکلات کا سامنا ہے ہمارے معاشی حالات دگر گوںہیں ملک پر واجب الادا بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے ہمارے قومی خزانے میں پیسے نہیں ہیں جس کے لیے آئی ایم ایف یا کسی دوسرے عالمی مالیتی ادارے سے رجوع کرنا پڑے گا جو ظاہر ہے ملک میں بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کے لیے دبائو ڈالے گا جس کے براہ راست اثرات بیس کروڑ غریب عوام پر پڑیں گے اس کے علاوہ پاکستانی مصنوعات کی قیمتیں بھی مزید بڑھ جائیں گی تو ہماری برآمدات کا حجم مزید کم ہوجائے گا جو پہلے ہی درآمدات کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے کیونکہ ان پر آنے والی زیادہ لاگت کے باعث وہ عالمی مارکیٹ میں مسابقت کی سکت نہیں رکھتیں جس کے باعث یہاں سرمایہ کاری کے امکانات اور بھی کم ہو سکتے ہیں جبکہ سی پیک سے نالاں امریکہ‘ بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کے خلاف پہلے ہی گھیرا تنگ کر رہا ہے اسی طرح حالیہ دنوں میں افغانستان کے تیور بھی بدلے بدلے سے نظر آتے ہیں جبکہ ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر پندرہ سولہ ارب ڈالرز کی نچلی سطح تک پہنچ چکے ہیں جس کی وجہ سے روپے کی قیمت دن بدن گر رہی ہے اور ڈالرکو پر لگ گئے ہیں ۔
عمران خان کی تقریر اور جذبہ یقینا صادق ہیں تا ہم اپنی تقریر اور لائحہ عمل کو عملی شکل دینے کے لیے وہ کس طرح کی ٹیم قوم کے سامنے لاتے ہیں؟ اس سے ہی اندازہ ہوسکے گا کہ پاکستان کی قسمت واقعی بدلنے جارہی ہے کیونکہ قوموں کی ترقی کے حوالے سے دیکھے گئے لیڈر کے خواب کی تعبیر کے لیے اس کی پوری ٹیم ہی اپنی اپنی جگہ پر حصہ ڈالتی ہے وفاقی کابینہ میں شامل وزراء اور مشیروں کے انتخاب کی شکل میں قوم کو اپنے مستقبل کے حوالے سے کچھ کچھ اندازہ ہورہا ہے معاشی محاذ پراسد عمر کی شکل میں یقینا اچھے اور قابل لوگ سامنے آرہے ہیں جبکہ وزیر خارجہ کی صورت میں مخدوم شاہ محمود قریشی کا انتخاب بھی امید کی ایک اچھی صورت ہے کیونکہ موصوف ماضی میں بھی وزیر خارجہ کی حیثیت سے ریمنڈ ڈیوڈ کے حوالے سے قومی خودداری کا بھرپور اظہار کر چکے ہیں اور اب بھی خارجہ محاذ پر پاکستان کو درپیش مشکلات کے حوالے سے ناصرف بخوبی آگاہ ہیں بلکہ اس منجھدار سے ملک کو نکالنے کے لیے پوری طرح سے یکسو اور متحرک ہیں اسی طرح اپنے اپنے شعبوں میں مہارت رکھنے والے پاکستانیوں کو عمران خان وزیراور مشیر نامزد کر کے ایک بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ کر رہے ہیں امید رکھنی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں واقعی ایک تبدیلی رونما ہوتی ہوئی قوم کو نظر آسکے گی ۔