وزیراعلیٰ پنجا ب کا سیاسی سفر
صوبہ پنجاب کی پسماندہ ترین تحصیل تونسہ شریف /قبائلی علاقہ یونین کونسل بارتھی کا شریف بیٹا سردار عثمان خان بزدار منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب ہوگیا ہے۔ جس سے اِس دھرتی میں ایک انقلابی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ پنجاب بالخصوص ضلع ڈیرہ غازی خان میں جشن کا سماں ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے جنوبی پنجاب کے سلگتے مسائل اور رستے زخموں پر مرہم رکھ دی ہے اور جنوبی پنجاب کے پی ٹی آئی ووٹرز کا حق شکریہ ادا کر دیا ہے۔۔ ڈیرہ غازی خان شہر میں بلاک نمبر 17میں واقع بزدار ہائوس لوگوں کی آمد و مبارک باد کا مرکز بن گیا ہے۔ وہ رونقیں جو کبھی اِسی بلاک نمبر 17میں واقع کھوسہ ہائوس کو نصیب ہوتی تھیں وہ اب بزدار ہائوس میں اہلیان شہر دیکھ رہے ہیں۔ سردار عثمان خان بزدار بھی چیف قبائلی سردار( تمن دار تمن بزدار) کا بیٹا ہے مگر شرافت او ر اخلاق اور ملن ساری میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ یکم مئی 1969ء کو پسماندہ ترین علاقہ میں پیداہونے والا بچّہ ایک دن اپنے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنے گا یہ خوشی نصیب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بے شک وہ اللہ جسے چاہے عزت بخشے۔ عثمان بزدار کی ابتدائی تعلیم قبائلی علاقہ بارتھی کی ہے۔ بعدازاں اُنہوں نے ملتان سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرزاور ایل ایل بی کی ڈگری بہائو الدین زکریا یونیورسٹی سے حاصل کی۔ وہ ڈسٹر کٹ بار ایسوسی ایشن ڈیرہ غازیخان کے ممبر ہیں۔ پیشہ کے اعتبار سے زمیندار ہیںاور الیکشن کمیشن کے گوشوارہ فارم ب کے مطابق گزشتہ سال 63890روپے زرعی ٹیکس بھی ادا کیا تھا۔ اُن کے نقد اثاثہ جات کی مالیت 761896روپے ہے۔ تونسہ شریف اور قبائلی علاقہ پر مشتمل انتخابی حلقہ پی پی 286سے آزاد اُمیدوار خواجہ نظام المحمودکو شکست دے کر پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے 27027ووٹ حاصل کیے ۔ 1998ء میں ممبر ضلع کونسل کی حیثیت سے سیاست کا آغازکیا۔ 2001ء تا 2011ء تک مشرف دور حکومت میں تحصیل ناظم قبائلی علاقہ خدمات سرانجام دیں۔ اِس دوران سیاسی وابستگی پاکستان مسلم لیگ قائد ( ق )سے رہی۔ بعدازاں لغاری سرداروں کے ہمراہ مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کی اور 2013ء کا الیکشن پاکستان مسلم لیگ نون کے پلیٹ فارم سے اِسی حلقہ پی پی 286سے پاکستان پیپلز پارٹی کے اُمیدوار خواجہ نظام المحمودکے مد مقابل لڑا مگر شکست کھائی۔ اِس دفعہ جنرل الیکشن 2018ء سے قبل پاکستان مسلم لیگ نون کو خیر باد کہتے ہوئے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شمولیت اختیار کی۔ مگر 9مئی 2018ء کو تمام ارکان جنوبی پنجاب صوبہ محاذ نے پاکستان تحریک انصاف میں خود کو اِس شرط پر ضم کر دیا کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی نئی حکومت کے قیام کے بعد پہلے 100دنوں میں جنوبی پنجاب میں نیا صوبہ انتظامی بنیاد و ںپر بنائے گی۔ پی ٹی آئی آج جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ جس کے پس پردہ محرومیوں کے ازالہ کیلئے پی ٹی آئی کا وعدہ قیام صوبہ جنوبی پنجاب ہے۔ اِس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون بھی جنوبی پنجاب پر اپنا راج رکھتی تھیں مگر عوام کے ساتھ بیوفائی کی بناء پر آج جنوبی پنجاب میں شرمندہ ہیں۔ سردار عثمان بزدار کے والد سردار فتح محمد خان بزدار زیر ک سیاستدان ہیں ۔وہ 1983-84ء میں ممبر فیڈرل کونسل مجلس شوریٰ ،1985-88ء ، 2002-07ء اور 2013-18 ء تک تین بار ممبر پنجاب اسمبلی رہے ہیں اور پاکستانی سیاست کی غلام گردشوں سے بخوبی واقف ہیں۔ نومنتخب وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدارکا سب بڑا اور کڑا امتحان پہلے 100دنوں میں نئے صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کے وعدے کو وفا بنانا اور اِس کیلئے فوری طورپہلے ایگزیکٹو آڈر برائے قیام سب سیکریٹریٹ وزیر اعلیٰ پنجاب اور سول سیکریٹریٹ ملتان کا اجرا ہے۔ یاد رہے کہ مالی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کئی عشروں سے پہلے تختِ لاہور کے وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ اور پھر سول سیکریٹریٹ میں بیٹھے طاقتور بیور و کریٹ کرتے چلے آرہے ہیں۔ اورجنوبی پنجاب کے سردار بھی والیانِ تختِ لاہور کی نیاز کے محتاج رہتے ہیں۔ تقریباً35ملین لوگ بشمول 141منتخب نمائندگان جب اپنے ہمہ قسمی ترقیاتی اور غیر ترقیاتی کاموں کیلئے سب سیکریٹریٹ وزیر اعلیٰ پنجاب اور سول سیکریٹریٹ ملتان کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ ورنہ وہ بیورو کریٹ جو لاہور میں بیٹھ کر جنوبی پنجاب کے سائلین اور ملازمین کو شودر سمجھتے ہیں،اُن کا براہمن پن کبھی بھی ختم نہیں ہوگا اور یہ پہلا قدم صوبہ جنوبی پنجاب کے قیا م کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگا۔ جنوبی پنجاب کے 141نئے منتخب نمائندگان بالخصوص پی ٹی آئی کے 68نو منتخب نمائندگان کا اب فرض بنتا ہے کہ وہ فوری طورپر ملتان میں سب سیکریٹریٹ وزیر اعلیٰ پنجاب اور سول سیکریٹریٹ کے قیام کو عملی شکل دیں ورنہ اب جاگ ہوئی قوم نے نو منتخب نمائندگان کاجو خود احتساب کرنا ہے اُس کی آزمائش نئی حکومتوں کیلئے ناقابل برداشت ہو جائے گی۔