نئی حکومت کا پہلے سو دنوں کا پروگرام
نئی حکومت نے اپنے سو دنوں پروگرام کا اعلان کردیا ہے۔ اہداف کے تعین اور اس کے حصول کیلئے کپتان کی ٹیم بھی میدان میں آ چکی ہے۔ سو دن کی الٹی گنتی جاری ہے، دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم اور ان کے ساتھی قوم کی توقعات پر کس حد تک پورا اترتے ہیں۔ بظاہر اقتدار پھولوں کی سیج نظر آتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان سات دہائیوں کے دوران مسائل کا شکار رہا ہے۔ خود سرکاری ادارے، گردشی قرضے میں اضافے کا بتا کر قوم کو پریشان کرتے رہے ہیں۔ وزیراعظم کے حلف سے ایک روز قبل قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ قرضوں میں بڑھتے ہوئے اضافے کی شرح ایک ہزار ایک سو اڑتالیس ارب ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان مقروض ملک و قوم اپنی معاشی خودمختاری سے کوسوں دور ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بتایا کہ پاکستان کا ہر بچہ سوا لاکھ سے زائد کا مقروض ہے لیکن قائمہ کمیٹی کی بریفنگ خاصی خوفناک صورتحال کی شہادت دے رہی ہے۔ نئی حکومت کے سربراہ عمران خان اپنی بہترین ٹیم سامنے لائے ہیں، وہ سادگی کا پرچار بھی کر رہے ہیں جس کی ایک جھلک تقریب حلف برداری میں دیکھی گئی جہاں مہمانوں کی تواضع صرف چائے اور بسکٹ سے کی گئی۔ سادگی کے یہ اثرات بالائی سطح سے نچلی سطح تک دکھائی دینے چاہیں ۔ سو دن کے پروگرام کو کامیابی کا جامہ پہنانے کے لئے حکومت کو بروقت عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کے ایجنڈے میں کرپشن کا خاتمہ سر فہرست ہے۔ ہمارے ماضی کے حکمران نہ صرف کرپشن کی بدولت وطن عزیز کی دیواریں کھوکھلی کر چکے ہیں بلکہ ریاست اس بیماری کی بدولت معاشی لحاظ سے بیماری کے آخری دہانے پہ ہے۔ کرپشن کا ناسور پاکستان میں کینسر کی بیماری کی طرح بڑھ رہا ہے۔ عمرانی حکومت کو اس کے خاتمے کے لئے تلخ اقدامات اٹھانے پڑیں گے جس کی زد میں ان کی اپنی پارٹی میں عین وقت الیکشن پر شامل ہونے والا ٹولہ بھی متاثر ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس اقدام کی بدولت ان پر طنز و تیز جملوں کے نشتر برسائے جائیں۔ یہ سب ان کو کھلے دل کے ساتھ برداشت کرنا پڑے گا۔ عوام کی بہتری اور ملکی بقا کی خاطر دیمک کی طرح لگی کرپشن کو ختم کرنا پڑے گا۔ عمران خان کو برسر اقتدار لانے کی سب سے بڑی وجہ تبدیلی ہے۔ عوامی رائے ہے کہ عمران کو موقع اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ پہلے سے آزمائے ہوئے نہیں ہیں اور عوامی امیدیں بھی ان سے دوسروں کی نسبت زیادہ ہیں۔ تبدیلی کے متوالے اس امید پر نعرے لگاتے رہے ہیں کہ آنے والا دور ان کا دور ہو گا۔ کروڑوں پڑھے لکھے لوگوں کو یکساں روزگار کے مواقع ملیں گے۔ نئے پاکستان میں سیٹوں پر براجمان نااہلوں کے بجائے اہل ہوں گے۔ نوکری کا معیار رشوت کی بجائے قابلیت ہو گا۔ ملک بھر میں انصاف کا معیار ایک جیسا ہو گا۔ گذشتہ کئی برسوں سے اسی امید سے واویلہ کر رہے تھے کہ ان کی حکومت میں قاتل وکٹری نشان کے ساتھ جیلوں سے بری نہیں ہوں گے بلکہ انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا جائے گا۔ عوام پریشان تھے کہ انھیں صاف پانی ،گیس ،بجلی اور صحت جیسی بنیادی سہولیات میسر نہ تھیں۔ بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور سابقہ حکومتوں کے لامتناہی وعدے ان کے لئے وبال جان تھے۔ نئے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ عوام کی اولین ترجیح ہوگی ۔ بلاشبہ اقتدار کے سب سے بڑے ایوان میں براجمان ہونے کے لئے عمران خان کی سالوں کی محنت شامل ہے۔ اب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں اور مشیروں کی ٹیم بھی چن لی ہے۔ جیسے بطور کپتان انھوں نے ٹیم کی قیادت کر کے ورلڈ کپ پاکستان کے نام کیا تھا اسی طرح قیادت کر کے ان قابل مشیروں سے پاکستان کی بہتری کے لئے کام لیں۔ تبھی پہیہ چلے گا اور ترقی ہو گی۔ اب عمران کو یو ٹرن لینے کی بجائے ایک فیصلہ کر کے اس پر ڈٹ جانا چاہیے۔ عوامی اکثریت عمران کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور امید کر رہی ہے کہ انکے دور میں تاریکی کے بادل چھٹ جائیں گے اور روشنی کی کرنیں نمودار ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ عمران خان کو اپنے وعدے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری دعائیں بہتر ،روشن اور مضبوط پاکستان کیلئے ہمیشہ ہیں۔جگر مراد آبادی یاد آ گئے؎
طول شب فراق سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو