گڈ لک
راولپنڈی کے محلہ میں ایک کمرے کے مکان میں اپنے ماں ،باپ بہن بھائیوں ، دادا ،دادی کے ساتھ رہنے والے سا تویں جماعت کے ایک سٹوڈنٹ نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ سب امیرکیوں نہیں ہو جاتے،پھر خود ہی کہنے لگا کہ اس طرح ہو جائے تو سب خوش رہنے لگیں گے،یہ اس بچے کی اپنی بے بسی کا معصومانہ ا ظہار تھا جو ایک کمرے کے مکان،بھوک اور ناپید سہولیات کے باعث تھی اور وہ اس کی وجہ سے مستقبل کو کھو رہا تھا ،ایک بار ایک نیم خواندہ لڑکی نے جو تعلیم جاری نہ رکھ سکی تھی ملازمت کے انٹرویو میں تاخیر سے آنے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ اس کا والد بیمار ہے،دوا لینے کی سکت نہیں ،کئی دن سے چارپائی پر پڑا ہے ،ماں کسی کے گھر میں کام کرتی ہے ، آج جب انٹر ویو کے لئے نکلنے لگی ،باپ نے کچھ نہ کھایا تھا آنکھ کھولی اور دودھ کے ساتھ رس کھانے کی خو اہش کی ،گھر میں یہ چیزیںدستیاب نہ تھیں،اور نہ پیسے تھے،انٹرویو پرپر پہنچنا تھا،ایک ذریعہ نظر آیا وہ یہ تھا کہ جو کاٹھ کباڑ پڑا تھا اس کو اٹھایا اور کباڑی کو دس بارہ روپے میں بیچا،اس سے دودھ اور ’’پاپے‘‘ خرید کر باپ کو دئے اور اس کے بعد یہاں آئی ہوں،اس لئے تاخیر ہو ئی،یہ دونوں سادہ سے الفاظ میں بیان کئے گئے واقعات ہیں،جو غربت،افلاس،علاج کی عدم دستیابی،بھوک،اور بے روز گاری کی جانب اشارہ کررہے ہیں ،جس گھر میں ایک وقت کا کھانا پکتا ہے اور وہ اسے دو وقت کھاتا ہے ،اس کو اپنی یا کرایہ کی چھت ملی ہوئی ہے ،معمولی بیمار پڑنے پر دوا خرید سکتا ہے اور اس کے بچے کہیں تعلیم لے رہے ہیں تو سمجھیں کہ وہ جنت میں رہ رہا ہے،ناداری اور بے بسی کی ایسی کہانیاں ہر جگہ ہیں اور ان گنت ہیں،ہم وہ ملک ہیںکہ زمانہ چیخ ،چیخ کر کہہ رہاتھا کہ معاشرہ غربت کے پیدا کردہ دلدل میں دھنس رہا ہے اور ہم دنیا کو خوبصورت الفاظ کی مالا جھپ کر خوشی اور خوشحالی کی داستانیں سنا تے رہے ہیں،المناک بات یہ ہے کہ اندرخانے سب کو حقیقت کا علم ہے، ،ایشوز کہہ لیں یا کچھ اور ، سب کو علم اور آگاہی ہے،اس کی وجوہات بھی پتہ ہیں،مگر تدارک کی جانب کوئی نہیں بڑھتا ہے،زبانی جمع خرچ،دعوئے اور اعلانات ہوتے رہتے ہیں،آمریت رہی یا جمہوریت راگ ایک جیسا ہی رہاکہ یہ کر دیا جائے گا اور وہ کر دیا جائے گا ،صحافی کے طور پر دعوئوں کی سات سروں کی سرگم اتنی بار سنی کہ ازبر ہو چکی ہے ،جب بھی کسی بڑے لیڈر کی تقریر اور خطاب کی کوریج کرنی پڑی تو چند جملے نوٹ کئے جو موصوف نے اپنے سیاسی مخالف کو رگیدنے کے لئے کہے ،کیونکہ ’’قاری ‘‘ کا چسکا پورا کرنا ہوتا ہے ،جیسے ہی لیڈر عوام کے غم میں مبتلا ہو کر ‘‘یہ کر دوں گا یا وہ کر دوں گا ،شروع کرنے لگے تو قلم کو روک دیا ،اور اپنے آسپ خیال کو کچھ اور موضوعات کی جانب دوڑا دیا ،یقین کریں کہ تقریر رپورٹ کرتے ہوئے رٹے رٹائے جملے کسی لیڈر کی تقریر میں ڈال دیں چل جاتے ہیں،کیونکہ تقریر میں ان کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا ،نہ حل بتایا جاتا ہے ،نہ ترغیب ہوتی ہے ،نہ عزم جھلکتا ہے اور نہ مقصد کاخلوص چھلکتا نظر آتا ہے،منافقت کے دربار میںسب ایک جیسے ہیں،پائی ،پائی بچانے کے بلند بانگ پر چارکوں کے سرکاری فلیٹ میں 33 نئی بلٹ پروف گاڑیاں نکل آتی ہیں ،کسی کے ہاتھ میں فرانس سے منگائی منرل واٹر کی بوتل دکھائی دیتی ہیں اور کسی کی کلائی میں 26 لاکھ کی گھڑی بندھی نظر آتی ہے،تو ملک تو کوہلو کے بیل کی طرح دائرے میں گھومتا اور نہ ختم ہونے والے راستہ پر چلتا ہی رہے گا اور اس کوئی منزل نہیں ہو گی ،اس روز قومی اسمبلی میں وزیر آعظم کا چنائو تھا ،خاک نشیں بھی ایک کونے میں بیٹھا سارا منظر دیکھ رہا تھا،ہنگامہ ہو رہا تھا تھا جو معمول کی بات ہے ،گیلریوں میں بیٹھے لوگوں کا اس میں حصہ لینا غیر معمولی تھا ،اس کی حکومتی بینچ کی جانب سے حوصلہ آفزائی افسوسناک تھی،وہ اس لئے کہ کیا آپ ہر اجلاس میں گیلریوں میں اپنے کارکن بیٹھائیں گے؟ جو شور مچا کر اپوزیشن کو دبائیں گے؟ایسا نہ کیا جاتا تو اچھا تھا ،گذشتہ دور میں آپ نے ایوان کے اندر اور باہر جب چاہا احتجاج کیا اور کسی نے نہیں روکا ،اب آپ بھی حوصلے کا مظاہرہ کریں کیونکہ آپ اپنے مقاصد بہت اعلی اور ارفع بتا رہے ہیں ،ارفع مقاصد والے چھوٹی باتوں میں نہیں الجھتے ہیں،اس روز جیتنے اور ہارنے والے نے جو کہا وہ تو سنائی نہ دیا مگر پی ایم کے الیکشن میں غیر جانبدار رہنے والی پارٹی کے لیڈر بلاول بھٹو نے بہت اچھی تقریر کی،جو خاموشی سے سنی گئی،بلاول بھٹو نقش چھوڑ رہا ہے،دیکھتے ہیں’ اس ‘نشست سے ’’اس‘‘ نشست تک کتنا وقت لگتا ہے اور راہ کے امتحان کیسے پاس کئے جاتے ہیں ،وزیر آعظم عمران خان نے قوم سے خطاب بھی کر لیا ہے ،ہو سکتا ہے کہ یہی وہ تقریر تھی جو وہ قومہ اسمبلی میں نہیں کر پائے تھے،تقریر میں ان تمام مسائل کی نشان دہی تھی جو سب کے علم میں 70سال سے ہیں اور ان کی شدت بڑھتی ہی گئی ہے،یہ وہی باتیں ہیں جو اس تحریر کے آغاز میں بھی موجود ہیں،ان کے حل کی جانب اگر قدم بڑھایا جائے گا تو اس کا خیر مقدم ہو گا،کون ہو گا جو نہیں چاہئے گا کہ اس ملک کے باسیوں کی زندگی میں تبدیلی نہ آئے،حکومت کو کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے،اس کو اپنے پروگرام پر عمل کا وقت بھی ملنا چاہئے،غیر حقیقی مزاحمت خود مخالف کے وجود کے لئے خطرہ ہوتی ہے،جو امر ہوتا ہے وہ تو ہو کر رہنا ہے اس لئے دیکھ لیا جائے کہ کس جانب سفر شروع ہوتا ہے،وزیر آعظم کے خطاب سے ایشوز کے بارے میں ان کی سوچ مذید واضح ہوئی ،وہ یہ سب کچھ کنٹینر کے اوپر اور جلسوں میں بھی بار بار کہتے رہے ہیں،اب عمل کا وقت آچکا ہے اور ’’کاونٹ ڈائون کا آغاز ہو گیا ہے،ان کی تقریر میں 100ڈیز کا حوالہ نہیں تھا،مگر امیدیں بہت ہو چکی ہیں ،انہوں نے’’وہ سڑکوں پر بھی آسکتے ہیں‘‘ کہہ کر اشارہ دیدیا ہے شائد کچھ بڑوںکے لئے آنے والا وقت خوشگوار نہیں،چلیں جب کچھ عمل میں آئے گا تو اس پر بات بھی ہو جائے گی ابھی ’’گڈلک‘‘ کہہ کر باتوں کو سمیٹتے ہوئے ہیں کہ عمران احمد خان نیازی کے خطاب میں ’’نوگو ایریاز‘ کا کافی لحاظ رکھا گیا، سول ملٹری تعلقات ،کشمیر پر کوئی بات نہیں تھی ،بس اتنا ہی کافی ہے کیونکہ باہر بیل بج رہی ہے اور مجھے دروازہ کھولنا ہے،دودھ والا آیا ہے۔