خواب دیکھنا بری چیز نہیں، اگر جذبات سچ پر مبنی ہوں تو انہیں حقیقت میں بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا،بقول شاعر:
ارادے نیک ہوں دنیا میں پھر کیا ہو نہیں سکتا
وگرنہ سایہ تک تیرا بھی تیرا ہو نہیں سکتا
گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پارٹی پالیسی کے حوالے سے نیوز کانفرنس کی، سابقہ کابینہ کے ایک وزیر نے تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا کہ اب تحریک انصاف کو باتوں کے بجائے کچھ کر کے دکھانا ہوگا، ایک نے کہا کہ یہ محض باتیں ہیں، ایک کا کہنا تھا کہ جس طرح عمران خان کی تقریر باتوں کا پلندہ تھی اُسی طرح پارٹی پالیسی بھی صرف باتیں ہی ہیں.... یہ سب باتیں ایک طرف مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ جو سیاستدان عوام سے جھوٹ بول کر اقتدار میں آتے رہے ، اربوں روپے کے گھپلے کر کے عوام کے پیسوں پر شب خون مارتے رہے ، کرپشن سے منہ کالا کرتے رہے وہ کس منہ سے نئی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔ اُس حکومت پر تنقید کر رہے ہیں جسے خزانے خالی ملے، ڈھائی سو ارب ڈالر میں ڈوبا ملک ملا۔ ان تمام خیالات اور جذبات سے الگ تھلگ ہو کر میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر جذبہ سچا ہے، اور واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو دنیا میںکیا نہیں ہوسکتا۔ وزیر اعظم عمران خان کے قوم سے خطاب کے بعد فواد چوہدری کا پالیسی جاری کرنا اور ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے روڈ میپ دینا کونسا گناہ ہے۔ کیا ان سیاستدانوں کو اپنے کیے پر شرم بھی نہیں آتی کہ انہوں نے ملک کے ساتھ کیا کیا ہے؟ پنجاب کی بیوروکریسی کی تباہی جتنی شہباز شریف کے دور میں ہوئی ، شاید ہی کسی دور میں ہوئی ہو۔
خیر حکومت کی جانب سے جاری کردہ پالیسی کی طرف آتے ہیں وزیر اطلاعا ت و نشریات فواد چوہدری کے چیدہ چیدہ نکات پر آتے ہیں ، اُن کے مطابق کابینہ نے وزیر اعظم ہاو¿س کی اضافی گاڑیوں کی نیلامی کی منظوری دی ہے ۔ سرکاری زمینوں کے حوالے سے ہیرٹیج کمیٹی جائزہ لے گی کہ گور نر ہاو¿س اور دیگر تاریخی عمارتوں کی حیثیت بھی متاثر نہ ہو اور ان کو کیسے استعمال میں لایا جائے۔ملک بھر میں کمشنرز ڈپٹی کمشنرز آئی جیز اور دیگر کے بڑے بڑے گھر ہیں اس حوالے سے اسد عمرکی نگرانی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں عبد الرزاق داو¿د اور خسرو بختیار شامل ہیں یہ کمیٹی ان عمارتوں کو منافع بخش بنانے کیلئے اقدامات کا جائزہ لے گی۔دوصوبوں میں ہماری حکومتیں ہیں وہاں فیصلے ہم خود کر لینگے جبکہ دوسرے صوبوں کو وفاقی حکومت آرٹیکل 149کے تحت ہدایت دے سکتی ہے۔ہم سود ادا کرنے کیلئے قرضے لے رہے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا اور ان عمارتوں کو منافع بخش پراپرٹیز بنائیں گے۔ان عمارتوں میں نچلے طبقے کے ملازمین کی ملازمتوں کا تحفظ کیا جائیگا انہیں کسی صورت نہیں نکالا جائیگا بلکہ انہیں دوسری مختلف جگہوں پر کھپایا جائیگا۔وزراءاور بیوروکریٹس کے دوروں کو بھی محدود کر نے کا فیصلہ کیا گیا ہے اگلے تین ماہ میں وزیر اعظم عمران خان اس وقت تک کوئی غیر ملکی دورہ نہیں کرینگے جب تک کہ ضروری نہ ہو۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بیرون ملک دوروں پر جائیں گے،اگلے ماہ اقوام متحدہ میں ہونے والے اجلاس میں بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان کی نمائندگی کرینگے۔ اسحاق ڈار و دیگر قانون کے سامنے پیش ہوں اور مقدمات کا سامنا کریں، حسن اور حسین نواز کو واپس لانے کیلئے اقدامات کریں گے۔گستاخانہ خاکوں کی کابینہ نے مذمت کی، احتساب کا عمل وزیراعظم اور وزراءسے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایون فیلڈ پراپرٹیز پاکستان کی ملکیت ہیں، نچلے درجے کے ملازمین کو نوکری سے نہیں نکالا جائے گا، ٹاسک فورس کا مقصد بیرون ملک سے پاکستان کی رقم واپس لانا ہے۔اس کے علاوہ حکومت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قرقی کیلئے برطانیہ کی عدالت سے رجوع کرنے اور پیسہ پاکستان لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں گے ۔کوئی کابینہ رکن سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج نہیں کرا سکے گا۔
مذکورہ بالا پُرعزم پالیسی اور کابینہ کے فیصلوں نے میرے خیال میں قوم کو ایک نئی اُمید دی ہے۔ اب اُن لوگوں کو تیار رہنا چاہیے جو عمران خان کو پہلے 100دن کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بناتے تھے، اور کہتے نہیں تھکتے تھے کہ عمران خان ڈلیور نہیں کر سکیں گے۔ اور اب جب عمران خان نے اپنے 100دن کے ایجنڈے کا اعلان کر دیا ہے۔ تو اُمید ہے پہلے 100دن میں 100بڑے قومی مجرم ضرور پکڑے جائیں گے کیوں کہ وزارت داخلہ عمران خان کے پاس ہے اور وہ پوری قوت کے ساتھ نیب کے پیچھے کھڑے ہیں۔ ان 100مجرموں
کو پکڑنے اور کیفر کردار تک پہنچانے کی قوم کو اُمید اس لیے بھی ہے کہ خیبر پختونخوا کی تاریخ کے سب سے با اثر پولیس سابق چیف انسپکٹر جنرل ( آئی جی ) ناصر خان درانی کو وزارت داخلہ کا ایڈوائزر مقرر کیا ہے۔ ناصر درانی کے کریڈٹ پر یہ بات ہے کہ انہوں نے بہت کم عرصے میں صوبے کے عوام میں پولیس کا تصور بدل دیا جو کہ اب عوامی شکایات پر پہلے سے زیادہ موثر نظر آتی ہے۔ ناصر درانی نے پولیس کے محکمے سے خراب کارکردگی والے افسران سمیت کئی اہلکاروں کو برطرف بھی کیا۔ان کی طرف سے متعارف کرائی جانے والی پولیس اصلاحات کو ان کے ساڑھے 3 سالہ عہدے کی مدت کے دوران حاصل ہونے والی بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے، جبکہ انہوں نے ان اصلاحات کو محکمہ پولیس کی انقلابی کامیابی بھی قرار دیا تھا۔اُن کو مرکز میں ذمہ داریاں ملنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عمران خان پنجاب پولیس کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہےں۔اور پنجاب میں چھپے ہوئے مجرموں کو نیب کے حوالے کرنے میں سنجیدہ بھی دکھائی دیتے ہیں۔
بادی النظر میں ان اقدامات پر عمل درآمد ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور میں اپنے تئیں اگر محتاط اندازہ لگاﺅں تو مجھے یقین واثق ہے کہ پہلے 100دن میں حکومت کی ترجیحات اور بہترین پالیسی سے ایک ہزار ارب روپے کی بچت کر پائے گی۔ اور اگر حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو یقینا اگلے پانچ سال میں پاکستان کی بدلتی تصویر کا عوام خود ادراک کریں گے۔ میں اکثر اپنے کالموں میں یہی کہا کرتا تھا کہ اگر کسی تیسری پارٹی کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو یقینا ملک بدلے گا، اس کی سب سے بڑی مثال آپ کے سامنے ہے، جب ملائشیا مہاتیر محمد کو ملا تو کیا تھا؟کرپٹ ترین ملک تھا، مہاتیر نے اسے ایشیائی ٹائیگر بنا دیا۔ ترکی جب اردوان کو ملا تو کیا تھا؟شورش زدہ ملک تھا جہاں خانہ جنگی کا ہر وقت کھٹکا لگارہتا تھا، اردوان نے اسے یورپ کے سامنے مضبوط معیشت بنا کر کھڑا کر دیا، چین کیا تھا؟ سری لنکا کیا تھا؟ جنوبی افریقہ کیا تھا؟ ان سب ملکوں کو شفاف قیادت نے ترقی کے زینوں تک پہنچایا ہے۔حقیقت میں یہ پالیسی ہی عمران خان کے لیے ترپ کا پتہ ہے جسے وہ اس ملک کی کامیابی کے لیے ہر صورت کھیلیں گے اور سب کا صفایا کر دیں گے۔آخر میں میں فواد چوہدری کو مبارک باد دیتا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ وہ Favouritismکو پروموٹ نہیں کریں گے۔ اور ساتھ یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ جس اخبار یا چینل کا رشتہ عوام کے ساتھ ہے اور وہ حق سچ بات کہتا ہے تو اُس کا گلا نہیں دبایا جائے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024